روح الامین نایابؔ
لفظوں کی جادوگری کو شعر کہتے ہیں۔ شاعر اور ادیب بڑی شخصیت ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ تقریر اور تحریر نے ہمیشہ دنیا پر حکمرانی کی ہے۔ شاعر قوم کی آنکھیں ہوتے ہیں۔ شعر زندگی ہے اور زندگی وہ ہے جو انسانیت کی فلاح و بہبود میں اور اپنے ملک و قوم کی ترقی، خوشحالی اور امن کی جدوجہد میں گزر جائے۔ اچھا شعر وہ ہوتا ہے جو تاریک ذہنوں کو روشن کرے۔ سماج اور وقت کے تقاضوں کا احاطہ کرے۔ اس طرح شعر اپنے کلچر، ثقافت، رسم و رواج اور انسانی مسائل کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
ایک اچھی اور معیاری نثر بھی سماج کی مکمل نمائندہ ہوتی ہے۔ اس طرح اچھا شعر اور اچھی نثر دونوں شاعر کی موت کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور ساتھ ادیب کو بھی بعد از مرگ احترامِ دوام بخشتے ہیں۔ اس طرح کے شاعروں اور نثر نگاروں پر قوم فخر کرتی ہے۔ ان میں ایک شاعر اور نثر نگار الہ ڈھنڈ ڈیرئی کے محمد جمیل کاچو خیل بھی ہیں۔
محمد جمیل کاچو خیل کے اب تک کے کل 9 عدد کتابی مجموعے چھپ کر منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان میں چار عدد پشتو شعری مجموعے اور دو عدد پشتو افسانوں کے مجموعے ہیں، جب کہ تین عدد اردو افسانوں کی کتابیں ہیں۔
محمد جمیل کاچوخیل کی شاعری اور نثر دونوں فن اور ہنر کے تقاضوں پر پورے اترتے ہیں۔ اُس نے اپنی ذہنی اور فکری دنیا کے اڑان کے علاوہ قومی جدوجہد کے میدان اور اپنے اردگرد کے ماحول میں جو کچھ محسوس کیا ہے، اُسے اپنے قلم کے ذریعے الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔
محمد جمیل کاچوخیل کے بارے میں افغان نژاد شاعرہ محترمہ زاہدہ مسکانؔ خٹک کہتی ہیں: ”محمد جمیل خان کاچو خیل پشتو اور اردو ادب میں ایک بڑا نام ہے، جو ادبی دنیا کے آسمان پر سورج کی طرح جگمگارہا ہے۔“
محمد جمیل خان کاچوخیل کی تحریر خواہ شعر میں ہو یا نثر میں، اپنی مٹی اور اپنے ماحول سے اخذ شدہ ہے۔ اُس کی تحریر میں عوام الناس کے مادی مسائل اور ان کی فکری ساخت صاف نظر آ رہی ہے۔ اُس کی تحریر عام عادتوں، رسوم و رواج اور روایات کا ایسا آئینہ ہے جس میں سماج کے ہر انسان کو اپنا اپنا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ اب لازمی بات ہے کہ ایسے انسان کی شعری اور نثری تحقیقات پڑھ کر بے اختیار اس کا دیدار کرنے کا شوق بڑھ جاتا ہے۔ مسئلہ یہ تھا کہ پہلے ملاقات ہوئی تھی نہ ٹھکانے کا پتا تھا، الہ ڈھنڈ تو بہت بڑا علاقہ ہے۔ اللہ بھلا کرے لیبر یونین کے صدر اور مزدور طبقے کے حوالے سے جدوجہد کرنے والے اور ساتھ ادبی ذوق کے عاشق ہمارے دوست فضیل حمید نے ہماری مشکل آسان کردی۔ یہ بھی یاد رہے کہ فضل حمید کے ذریعے ہمیں (یعنی راقم الحروف اور کالم نگار تصدیق اقبال بابو کو) محمد جمیل کاچو خیل کی بعض کتابیں مل گئی تھیں اور ہمارا اُس پر تبصرہ بھی ”روزنامہ آزادی“ میں شائع ہوگیا تھا۔ اس حوالے سے جمیل صاحب بھی ہم سے ملاقات کا اشتیاق رکھتے تھے۔ چوں کہ فضل حمید صاحب کی محمد جمیل صاحب سے شناسائی تھی اور انہیں اُس کا ٹھکانا معلوم تھا، لہٰذا ہم تینوں (یعنی مَیں، تصدیق اقبال بابو اور فضل حمیدو کیدو) بمورخہ 29 اپریل 2019ء کو الہ ڈھنڈ ڈیرئی میں اُس کے حجرے پر تقریباً صبح 10 بجے حاضر ہوئے۔ بہت مخلص اور میٹھے انسان ہیں۔ سادگی کا پیکر ہیں۔ کوئی بناوٹ، مصنوعیت اور غرور نہیں۔ سادہ لباس میں ملبوس محبت بھری ادبی باتوں میں ہم گھنٹوں مشغول رہے۔ سب سے زیادہ دلچسپ اور اچھنبے کی بات یہ ہوئی کہ اپنے وقت کے مشہور شاعر اور قومی سیاست کے زبردست مبارز محمد سرور خٹک بھی شریک محفل رہے۔ اُس کی داستانِ زیست، داستانِ عشق، داستانِ سیاست اور داستانِ ادب سے بھی محظوظ ہوتے رہے۔
جمیل صاحب نے اس موقع پر ہمیں پُرتکلف کھانا کھلایا۔ مہمان داری اور خاطر تواضع میں کوئی کثر نہیں چھوڑی اور سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ کہ اپنی نئی اور پرانی شائع شدہ قیمتی کتابوں کے تحفہ سے ہمیں دل کھول کر نوازا، جس کے لیے مَیں اور تصدیق اقبال بابوؔ از حد مشکور ہیں۔ بعد میں جمیل خان کاچوخیل سے رخصتی کے بعد محمد سرور خٹک کے پُرزور اسرار پر اُس کے دولت خانے پر بھی حاضری دی۔ اُس نے نہایت خلوص سے خاطر مدارات کی۔ اپنی اور اپنی بیگم زاہدہ مسکانؔ خٹک کی شائع شدہ کتابیں بہ طور تحفہ دیں۔ یوں شام دیر کو مذکورہ یادگار دورہ اپنے اختتام کو پہنچا اور ہم سب بہ خیر و عافیت واپس اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچے۔
قارئین، موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب محمد جمیل خان کاچو خیل کی کتابوں کا مختصر سا ذکر ہوجائے۔
٭ نیمگڑی نعتونہ:۔ یہ پشتو زبان میں لکھی گئی نعتوں کا مجموعہ ہے۔ یہ جمیل صاحب کی پہلی تخلیق ہے جسے خوبصورت نعتوں سے مزین کیا گیا ہے۔
٭ رنڑا گانے:۔ یہ بھی پشتو شاعری ہے۔ یہ کتاب چوں کہ میں نے پڑھی نہیں، لہٰذا اس پر کچھ لکھنے سے قاصر ہوں۔
٭ ژوندی مڑی (زندہ لاشیں):۔ یہ پشتو افسانے ہیں۔ اس کا مرکزی موضوع منشیات ہے۔ اس میں منشیات پر اس کے استعمال، محرکات، وجوہات پر ایک مکمل معلوماتی تحریرمقالے کی صورت میں موجود ہے۔ چھوٹے چھوٹے افسانوں اور کہانیوں کی صورت میں منشیات استعمال کرنے والوں کے عبرت ناک اور افسوس ناک انجام سے خبردار کیا گیا ہے۔ یہ کتاب والدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ پڑھ لیں اور نوجوان نسل کے لیے بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔
٭ سپین مخونہ، تور زڑونہ:۔ یہ پشتو افسانے ہیں۔ ان افسانوں میں انسانوں کی منافقت کے ساتھ ساتھ قول و فعل میں تضاد کو واضح کیا گیا ہے۔ اس میں سفید خوبصورت چہروں کے پیچھے کالے اور سیاہ دلوں کی داستانیں خوبصورت پیرائے میں بیان کی گئی ہیں۔
٭ دَ وخت زہر:۔ پشتو شاعری کی اس کتاب میں وقت کے زہر کو شاعری کی جادوئی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ معاشرے اور سماج کے مظالم، بے انصافیوں، غربت، مجبوریوں کے وقتی اور حقیقی زہر کو انسانی شخصیت اور سماجی ترقی قاتل بتایا گیا ہے۔
٭ دَ وخت زہر:۔ پشتو شاعری کی اس کتاب میں وقت کے زہر کو شاعری کی جادوئی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ معاشرے اور سماج کے مظالم، بے انصافیوں، غربت، مجبوریوں کے وقتی اور حقیقی زہر کو انسانی شخصیت اور سماجی ترقی قاتل بتایا گیا ہے۔
٭ د وخت جبر:۔ یہ پشتو زبان میں کی گئی شاعری کا مجموعہ ہے۔ یہ پسے ہوئے مزدور طبقے کی غربت اور مجبوریوں کی ترجمان شاعری ہے۔ اس شاعری پر طبقاتی رنگ چڑھا ہے، جس میں پسے ہوئے محنت کش طبقے کے درد ناک حالات کے ساتھ ساتھ بغاوت بھی ہے، مزاحمت بھی اور انقلابی رنگ میں بھی رنگی ہوئی ہے۔ میں اس کتاب سے ایک قطعہ تحریر کیے دیتا ہوں۔
ڈوڈی راکہ بیا بے شکہ لاس می پریکڑہ
اے منصفہ! غلا بہ کوم تش می لڑمون دے
تل د لوگی پہ زائے وگی دلتہ وژنی
دَ وطن می عجیبہ شانتی قانون دے
”روٹی دے دوپھر بے شک میرے ہاتھ کاٹ دو۔ اے منصف، چوری تو کروں گا ہی، کیوں کہ میرا جو پیٹ خالی ہے۔ ہمیشہ بھوک کی بجائے بھوکے کو مارتا ہے۔ میرے وطن کا عجیب سا قانون ہے۔“
٭ نوحہئ بے نام:۔ سوات کے اندوہناک حالات پر لکھے ہوئے اُردو افسانوں کا مجموعہ ہے۔ حالات کو نہایت خوبصورتی سے عوام کے سامنے رکھا گیا ہے جو ہر ذی شعور اور حساس انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔
٭ جلتا سرا سلگتی روح:۔ منشیات کے استعمال کے ناسور کی اہمیت کا اندازہ لگاتے شاید محمد جمیل خان کاچوخیل نے یہ ضروری سمجھا کہ ”ژوندی مڑی“ کے پشتو افسانوں کو اُردو زبان میں بھی شائع کیا جائے۔ یہ ایک قابلِ قدر جذبہ ہے جسے بہرحال سراہنا چاہیے۔
٭ میرا برزخ:۔ سماج کی بے رُخی، بے انصافی، معاشرتی منافقت اور تضادات پر مبنی خوبصورت افسانوں کا اردو مجموعہ ہے۔ اس میں کچھ افسانوں ”سپین مخونہ تور زڑونہ“ کو پشتو سے اُردو میں ترجمہ کرکے ڈال دیا گیا ہے۔ اس کتاب میں اردو افسانہ ”رب کریم“ اپنے فنی ساخت اور موضوع کے اعتبار سے ایک شاہکار افسانہ گردانا جاسکتا ہے۔
میں اور تصدیق اقبال بابو جمیل خان کو اُن کی تخلیقات پر مبارکباد دیتے ہیں اور اُن کی ادبی خدمات کو قدر کی نظر سے دیکھتے اور سراہتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کی مہمان نوازی، خاطر تواضع نیز اپنی کتابیں تحفتاً دینے پر دل سے اُس کے شکر گزار ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اُس کا زورِ قلم اور زیادہ ہو، اُسے صحیح اور سچ لکھنے کی توفیق نصیب ہو، آمین!