سلیمان ایس این
فضل خالق سوات کے نوجوان صحافیوں اورلکھاریوں میں ابرتا ہو مستند نام ہے آپ نے سوات کے آثار قدیمہ اور اس سے وابستہ کہن تہزیب وہ ثقافت پر جو تحقیقی کام کیا ہے وہ نہایت ہی قابل قدر ہے،سوات کے بارے میں اپنے کتاب میں فضل خالق جو اصل میں میرے ماموں بھی ہے نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ قابل غور ہے آئے آپ کو بھی ان کے کتاب :ادھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ ” میں لکھی تحریر سناتے ہیں وہ لکھتے ہے کہ
یہاں کی ہر یالی عجیب ہے،جو رنگ بھرنگے پھولوں سے مل کر فردوسی رنگ میں ڈھلی ہوئی ہے۔سرسبز کھیتوں کے درمیان نیلے رنگ کا دریاں جہاں دور سے ہیبت طاری کرتا ہے۔وہاں قریب سے اس کا صحت افزا پانی نہ صرف انسان کے لئے کشش کا باعث ہے بلکہ یہاں کے رہنے والوں کو رزق کا وسیلہ بھی ہے۔پھلوں،پھولوں اور خوش مزاج لوگوں کے اس دیس میںہر قدم پر تہزیبیت ہے اور چاروں طرف پہاڑ ،تاریخ و تہزیب کے قصے سنانے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں،ہزاروں کی تعداد میں گوں ناگوں خانقاہیں،راہیبوں اور طالب علموں سے بھری پڑی ہے،جہاں دن رات علم کا ورد اور امن کا درس دیا جاتا ہے،جہاں صبح اور شام کے وقت بجتے جرس اور دل آویزاں ماحول میں ہلکی موسیقی اپنا رنگ جماتی ہے۔یہاں رزق کی فراوانی ہے اور لوگ خوشحال ہے،تجارتی قافلوں کی ریل پیل ہےاور مہمان نوازی کا بول بالہ ہےجہاں آئے ہوئے ہر مہمان کا بلا تفریق رنگ و نسل تین دن تک مہمان نوازی کا رواج ہے ۔جہاں بدھما سمبھاوا(بدھا ثانی) نے جنم لیا اور یہاں سے جنوب مشرقی ایشیا میں بدھ مت کو پھیلایا،جگہ جگہ جوق درجوق علم کے پیاسے آتے ہیں اور ادھیانہ کے سرزمین سے علم کے خزینے لے کر واپس جاتے ہیں،یہ سلطنت ادھیانہ ہے،ادھیانہ یعنی شاہی باغ۔”
اوپر کا اقتباس قدیم زمانے میں چین سے آئے ہوئے زئرین کے سوات کے بارے میں تجربات کا خلاصہ ہے،ہندووں کے مقدس شخصیت مہاراجہ رام چندر جی نے ایم پہاڑ پر بن باس لے کر اسے ہندووں کے لئے بھی مقدس بنا دیا ہے کہتے ہے کہ ایلم کی پہاڑ کی عظمت اور تقدس کی روایات زر تشتیوں ،پارسیوں اور یونانیوں کی کتابوں میں بھی ملتی ہے
صدیوں سے اپنے دامن میں مختلف تہزیبوں کو جنم دینی والی وادئی سوات نہ صرف بدھ مت اور ہندومت بلکہ مسلمانوں کے لئے لئے بھی مقدس وادی ہے یہی وہ سرزمین ہے جو بدھ مت کے پیروں کاروں اور ہندووں کے لئے مقدس ترین جگہ کی حیثیت رکھتی ہےاور یہاں آنے کے لئے بدھ مت کے اکثر پیروں کار بے تاب رہتے ہیؐ۔سوات کی تاریخی اور تہزیبی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے لئے کچھ زاتی تجربات پیش نظر ہے مئی 2014 میں ،میں ایشیا کے صحافیوں کے ساتھ سنگا پور کے ایک دورے پر تھا،سنگاہ پور کی حکومت ہمیں مختلف منصوبوں اور جگہوں سیر کروارہی تھیاور ساتھ ساتھ ہر منصوبے اور جگہ کے بارے میں بریفنگ بھی دے رہی تھی،اس دوران ہیؐ ایک عجائب گھر بھی جانے کا اتفاق ہوا جہاں ہمیں ایک گائیڈ ہمیں مختلف حصوں میں لے جاکر معلومات فراہم کررہا تھا۔ایک جگہ گائیڈ اچانک احترما خاموش ہوگیا اور ہم سب سے بھی خاموش رہنے کی التجا کی پھر وہ دھیمی آواز میں کہنے لگا۔:” یہ بدھا کا مجسمہ ہے جو تاریخی اعتبار سے بہت قیمتی ہے کیونکہ اس مجسمے کا تعلق ادھیانہ سے ہے جو کہ آج کل خیبر پختونخوا صوبے میں ضلع سوات کے نام سے جانا جاتا ہے۔” سوات کا نام سن کر میرے تمام دوست میرے طرف دیکھ کر مسکرا دئے جس پر ہمارے گائیڈ نے وجہ دریافت کی ،نیپال سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے میرے طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ موصوف سوات سے تعلق رکھتے ہیں۔جو ہی گائیڈ کو معلوم ہوا کہ میرا تعلق سوات سے ہے تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر میرے پاس آیا اور میرے تعظیم میں دست بستہ کھڑا ہو گیا۔سب لوگوں کو وہ نظر انداز کرکے وہ مجھ سے سوات کے بارے میں پوچھتا رہا اور میں گائیڈ بن کر جوابات دیتا رہا۔اسی طرح سنگا پور ہی میں ایک دن ہم ایک علاقے سے گزر رہے تھے کہ میری نظر ایک بورڈ پر پڑھی جس پر ادھیانہ لکھا ہواتھا۔ ادھیانہ کا لفظ پڑھ کر میری جستجو ہوئی،بورڈ پر لکھے ہوئے ٹیلی فون نمبر کو نوٹ کیا ،شام کو جب اپنے کمرے میں آیاتو میں نے متعلقہ نمبر پر کال کیا اور اپنا تعارف کرنے کے بعد ان کے ادارے کے بارے میں پوچھا۔معلوم ہو کہ وہ ایک فلاحی ادارہ ہے جو لوگں کے دکھ درد میں کام آتا ہے۔ٹیلی فون پر بات کرنے والے نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو میں بھی یک دم راضی ہوا ۔قصہ مختصر اگلے روز میں اس جگہ پہنچا۔وہاں میری بہت آو بھگت ہوئی۔” موجودہ سوات ہمارے لئے اتنا مقدس ہے ،جتنا مسلموں کے لئے مکہ معظمہ ہے۔وہاں کا زرہ زرہ ہمارے لئے مقدس ہے کیونکہ وہاں ہمارے گورورینپوشے(پدھما سمبھاوا) نے جنم لیا ” منتظم نے کہا ۔
جب میں وہاں سے رخصت ہوا تو پشتو محاورے”من من غٹ شوے ووم” کے مصداق تھا۔
مگر انتہائی خوشی کے ان لمحات میں، میں فکر مند بھی تھا ،فکر مند اس لئے کہ اللہ تعالی نے ہمیں جس خوبصورت وطن سے نوازا ہے چند ہی سالوں میں ہم نے اس کا جو حشر کردیا ہے،جو اب وہ حقیقتا اب دینا کو دکھانے کے قابل نہیں رہا۔یہاں کی قدرتی حسن کو ہم جس طرح پاوں تلے روند رہے ہیں ،وہ ایک الگ کہانی ہے مگر جس طرح ہم نے یہاں کے تہزیبی ورثے کو پائمال کیا ہے اور کررہے ہیں اس کی مثال دنیا کہ کسے کھونے میں نہیں ملتی،درجنوں گروپس جو یہاں کے تاریخی آثار میں غیر قانونی کھدائی اور اسمگلنگ میں مصروف ہیں،وہ ہمارے تاریخ کو انتہائی بت دردی سے مسخ کررہے ہیں۔
تاریخ دانوں اور آرکیالوجی ماہرین کے مطابق سوات میں دس فیصد تحقیق بھی نہیں ہوئی اور ضرورت اس امر کی ہے کہ بڑے پیمانے پر یہاں کے آثار قدیمہ کی کھدائی کر کے تحقیق کی جائے اور اس میں دفن ہزروں سال کی تاریخ کو سامنے لایا جائے،پیسوں کی لالچ اور مزہبی مغالطے میں تاریخی و تہزیبی ورثے کو جس طرح تباہ کیا جارہا ہے اگر اس کی بر وقت روک تھام نہ کی گئی تو دور نہیں کہ سوات کسی کھنڈر کی شکل پیش کرے گا۔ویسے بھی ہم تیزے سے یہاں کے حسن کو غلیظ کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں اور یہی حال یہاں کے تاریخی وہ تہزیبی ورثے کا ہے
یہ بات تو طے ہے کے قدیم اقوام نے وادی سوات کو جنت کا گہورا بنایا تھا ۔یہاں کے کونے کونے میں امن و آتشی کے بیج بوئے تھے اور اسے تہزیب کا مسکن بناکر ہمارے لئے چھوڑ دیا تھا لیکن افسوس ہم نے جنگلی اقوام کی طرح اس کی خوبصورتی کو بگاڑ کر اسے بد صورت بنا ہی تو لیا ہے ساتھ ہی میں یہاں کا سکون ،جنگ کا بازار گرم کرکے،غارت کردیا ہے
سوات کے سینئر صحافی فضل خالق کے کتاب "ادھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ” سے اقتباس