سینے پر صدارتی ایوارڈ سجائے سابق اسکاؤٹ اور معروف سماجی کارکن محمد علی اپنے آفس کی آرام دہ کرسی پر بیٹھے بالکونی سے باہر حد نگاہ تک پھیلے پہاڑوں کو دیکھتے ہیں اور ایک گہری آہ  بھرتے ہوئے سانس کو ایسے باہر نکالتے ہیں جیسے وہ اس کے ساتھ اپنے اندر موجود یادوں کو بھی باہر نکالنا چاہتے ہوں، اسی دوران ان کی نظر مکان باغ نالہ کے سوکھتے پانی پر پڑتی ہے۔

یہ منظر اپنی آنکھوں میں قید کرتے ہوئے محمد علی اس جگہ موجود ہیں، جو اخپل کور ماڈل اسکول کے نام سے جانی جاتی ہے، یہ وہی جگہ ہے جہاں سے صرف ایک کلو میٹر کی مسافت پر تعلیم دشمنوں نے سوات کی گل مکئی اور نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کو خونم خون کیا تھا۔

محمد علی نے سال 2009 میں شروع ہونے والے آپریشن راہ نجات کی بھینٹ چڑھنے والے پولیس والوں اور عسکریت پسندوں کی تعداد کا اندازہ لگانا چاہا مگر وہ ایسا نہ کرسکے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جنگ کتنی زیادہ جانیں نگل چکی ہے۔

محمد علی کے خیال میں صرف تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے وہ مستقبل میں ہونے والے خون خرابے کو روک سکتے ہیں اور اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، تاکہ پھر کوئی بچہ ایسے یتیم نہ ہوسکے۔ اس سوچ نے انہیں اس جنگ میں یتیم ہونے والے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔

اس علاقے میں محمد علی ہی وہ واحد شخص نہیں جو آنے والی نسل کے مستقبل کیلئے فکر مند ہیں، بلکہ محمد علی کے دیگر ہم جماعت بھی ایسے بچوں کی کفالت کا بیڑہ اٹھا چکے ہیں، جن کے سرپرست قبائلی جنگ یا پھر کرائے کے قاتل ہونے کے باعث لقمہ اجل بنے۔

محمد علی کا کہنا ہے کہ ہم اس جنگ سے متاثرہ بچوں کو ہر ممکن مدد فراہم کریں گے، بیشک ہمیں ان کے کپڑے ہی کیوں نہ دھونا پڑیں، یا انہیں کھانا ہی کیوں نہ کھلانا پڑے اور اگر ممکن ہوا تو تعلیم بھی فراہم کریں گے اور یہ ہی وہ نکتہ تھا جو خپل کور کا آغاز بنا

اس اسکول کی ابتدا سال 1996 میں صرف ایک کمرے سے ہوئی، مگر آج سال 2021 تک اخپل کور کی تین شاخیں سوات میں لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرا رہی ہیں۔ ہر شاخ میں ہزاروں طلباء زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے ہزار سے زیادہ بچے یتیم ہیں۔ یتیموں میں 350 بچوں کے والدین عسکریت پسند گروپوں، جب کہ دیگر بچوں کے والدین قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعلق رکھتے ہیں۔

محمد علی کا کہنا تھا کہ ابتداء میں ایسے بچوں کا اسکول میں داخلہ مشکل لگا، جن کے والد یا تو فورسز یا پھر عسکریت پسند گروپوں سے تعلق رکھتے تھے۔ میرے لئے وہ زندگی کا مشکل ترین وقت تھا کہ میں ماؤں کو اس اسکول میں بچوں کے داخلے کیلئے قائل کرتا، ماوں کے نزدیک وہ یہ کیسے برداشت کرتیں کہ ان کا بچہ اپنے باپ کے قاتل کے ساتھ بیٹھ کر ایک ہی چھت تلے تعلیم حاصل کرے۔

لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اسکول کی ساکھ بنی۔ مجھے لوگوں کا اعتماد حاصل ہوا اور بچوں نے اسکول میں داخلہ لینا شروع کیا۔ اسکول کی ماہانہ فیس بہت کم مقرر کی گئی، جس سے یتیم بچوں کی کفالت ممکن ہوسکی، جن کا اپنا ماہانہ خرچ سات ہزار روپے تھا۔ بعد ازاں سوات اور ملک بھر سے مخیر حضرات نے اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالا۔

میرا یہ اصول ہے کہ کسی غیر سرکاری تنظیم یا امداد دینے والے ایجنسی سے کوئی امداد نہ لی جائے، تاہم کچھ افراد نے ذاتی طور پر اپنا فرض سمجھتے ہوئے بہت سے بچوں کی کفالت کا ذمہ اٹھایا۔

محمد علی کیلئے سب سے مشکل کام ایسے بچوں کے داخلہ فارم مسترد کرنا تھا، جن کے والدین لاپتا تھے۔

محمد علی کا کہنا تھا کہ صرف سال 2018 میں ہی انہوں نے ایک ہزار ایک سو داخلہ فارم مسترد کیے، کیوں کہ انہیں حکومت کی جانب سے ایسے بچوں کو اپنے اسکول میں داخلہ دینے کی اجازت نہیں تھی۔

زندگی کی جانب واپسی

خپل کور میں آنے والے عسکریت پسندوں کے بچے مختلف ذہنی صدموں سے دوچار تھے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ ایک سال تک وہ پڑھ نہ سکے۔ ان کی ذہنی کیفیت کو معمول پر لانے کیلئے انہیں تفریج اور موسیقی کی جانب راغب کیا گیا۔ ان کے ساتھ ماہرین نفسیات کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ یہاں بچوں کو سزائیں نہیں دی جاتی، تاہم اگر کوئی غیر معمولی حرکت کرتا ہے تو اس کیلئے یہ ہی سزا کافی ہوتی ہے کہ اسے اگلی پکنک پر جانے سے روک دیا جائے۔

علی کا مزید کہنا ہے کہ صرف اسکول ہی نہیں، ایسے کئی گھر تھے جہاں سرپرست کے مرنے کے بعد زندگیاں یکسر تبدیل ہوگئیں۔ میں ایسی کئی ماؤں کو جانتا ہوں جو اپنے بھوکے بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے جسم فروشی جیسے گھناونئے دھندے میں ملوث ہوئیں۔ مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے انہوں نے یہ کام ترک کیا۔

علی کا کہنا تھا کہ اصل امتحان ایک عسکریت پسند کے بچے کو تعلیم دینا ہوتا ہے۔ اسکول میں ملنے والی تعلیم اور عسکریت پسندوں کے گھروں کا ماحول یکسر مختلف ہوتا ہے۔ اسکولوں میں ملنے والی تعلیم اس سے مختلف ہوتی ہے، جو باتیں عسکریت پسندوں کے گھروں میں سکھائی جاتی ہیں۔

خپل کور اسکول میں پڑھانے والے استاد رحمت علی کا کہنا ہے کہ پرائمری سطح پر دینی تعلیم کوئی مسئلہ نہیں، تاہم نویں، دسویں اور گیارویں ،بہارویں جماعت میں آنے کے بعد یہ مضمون زرا پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ کورس میں شامل دینی تعلیم پڑھ کر اکثر ایسے گھرانوں کے بچے تذبذب کا شکار ہوتے ہیں، انہیں سمجھ  نہیں آتا کہ آیا اسکول میں ملنے والا درس درست ہے یا گھر میں ملنے والی تعلیم۔

یہ بچے ایک ایسے مخصوص ماحول سے آتے ہیں جہاں دینی تعلیم کا ایک الگ ہی نقشہ کھینچا جاتا ہے۔ اکثر اوقات یہ بچے ایسے سوالات کرتے ہیں کہ اس کا جواب دینے میں ہم اپنے بینادی نقطے سے ہٹ جاتے ہیں،

خپل کور کے استاد کے مطابق اگر حکومت واقعی اس علاقے کے بچوں کی فلاح اور بہبود کیلئے کام کرنا چاہتی ہے، بچوں کو انتہا پسندی سے نکالنا چاہتی ہے تو اسے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ملکر اس علاقے کے بچوں کے کیلئے علیحدہ نصاب مرتب  کرنا ہوگا۔

اسکولوں کے اساتذہ بچوں کو روایتی نصاب کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے، تاہم وہ اس سلسلے میں خود بھی کچھ کرنے سے قاصر ہیں،انہیں فکر اس بات کی ہے کہ ان بچوں کو آگے انٹر کے امتحان بھی پاس کرنے ہیں، جو روایتی نصاب پر مبنی ہوتے ہیں۔

خپل کور اسکول کے بچوں کو امتحانات میں ایسے ہی سوالات کے جوابات لکھنے ہوتے ہیں، جیسے صوبے کے دیگر بچے لکھتے ہیں، تاہم ان کیلئے ان سوالات کا جواب دینا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیوں کہ وہ زندگی اور اسلام کو ایک مختلف نظر سے دیکھتے آئے ہیں۔

بظاہر ایک جیسے نظر آنے والے بچوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہوتا ہے کہ وہ اندر کس کرب سے گزر رہے ہیں۔

اگر آپ عسکریت پسند اور قانون نافذ کرنے والوں کے بچوں میں کوئی فرق نہیں بتاسکتے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دونوں اندر سے ایک جیسی ذہنی کیفیت کا شکار ہیں، تاہم اس ادارے کے ذریعے انہوں نے خود کو مثبت انداز سے تبدیل کرنے کا اعادہ کر رکھا ہے۔