فضل محمود روخان
ڈپٹی کمشنر ضلع سوات جنید خان کو سوات آئے ہوئے ابھی چند مہینے گزرے ہیں کہ انہوں نے اپنا چارج سنبھالا ہے، لیکن اس کم عرصے میں انہوں نے جو کام کیے ہیں اور اپنے آفس میں جو اصلاحات نافذ کی ہیں، وہ قابلِ تعریف ہیں۔ انہوں نے چارج لینے کے بعد اپنے تمام عملے کو اندرونِ خانہ پہلے سے مختلف کام دیے اور نئی نئی پوسٹوں پر تعینات کرکے انہیں کام پر لگا دیا، تاکہ کارکردگی میں بہتری پیدا ہو اور لوگوں کے کاموں میں آسانی ہو۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے ایک کرسی پر تیس تیس سالوں تک ملازمین ڈیوٹی دیتے چلے آرہے تھے۔ ایک قسم کی اجارہ داری بن گئی تھی۔ موصوف نے کرپشن کے خاتمے کے لیے حتی الوسع اقدامات اُٹھائے ہیں، جس سے رشوت اور کرپشن میں کسی حد تک کمی آئی ہوئی ہے۔ڈپٹی کمشنر صاحب نے عوام کو رابطے میں رکھنے، اُن کی مشکلات کو کم کرنے، مسائل کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حل کرنے کے لیے عوام کو اپنی ذات سے جڑے رکھنے اور خود تک براہِ راست رسائی دینے کے لیے طریقۂ کار کو نہایت آسان بنایا ہے۔ اب ہر کوئی اُن سے براہِ راست ملنے یا فون پر اُن سے اپنی مشکلات بیان کرنے کا موقع حاصل کرسکتا ہے۔جنید خان جوان ہیں۔ اُن کے حوصلے بلند ہیں۔ وہ اپنے ضلع سوات سے ہر قسم کی بے انصافی اور برائی ختم کرنے میں جت گئے ہیں۔ وہ سوات کے ترقیاتی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ اُن کے پاس سیاحت کا قلم دان بھی ہے۔ وہ سیاحت کے فروغ کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے سڑکوں کے کنارے جگہ جگہ ہورڈنگ بورڈ لگائے ہیں، جس سے ہر کسی کو سوات کے تاریخی مقامات کے ناموں اور فاصلوں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔سوات قدرتی حسن سے مالا مال اور تاریخی لحاظ سے ہزاروں سال پہلے بدھ مت کا گڑھ رہ چکا ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت بدھ مت کے پیروکار 50 کروڑ سے زیادہ ہیں۔ سوات اُن کے مقدس مقامات میں پہلے نمبر پر آتا ہے کہ سوات ہی سے بدھ مت پھیل گیا ہے۔ یہاں سے بدھ ازم کا بڑا عالم پدما سمجھاوا جو سوات کا باشندہ تھا، تبلیغ کے لیے اکثر مختلف ملکوں کے دورے پر جایا کرتا تھا۔ اٹلی کے مشہور آرکیالوجسٹ پروفیسر ٹوچی کو تبت کے آثارِ قدیمہ کی کھدائی میں ایک ایسی تحریر ملی تھی جس میں لکھا ہوا تھا کہ اگر آپ کو ارجن پا کہیں بھی نظر آجائیں، تو آپ پر تعظیمی سجدہ لازم ہے۔ ارجن پا، بدھ مت کی مذہبی تحریروں میں سوات کے باشندوں کو کہتے ہیں۔ پروفیسر ٹوچی کہتے ہیں کہ جب مَیں نے یہ کتبہ پڑھا، تو مَیں نے سوات جانے کا ارادہ کیا۔ اُن دنوں سوات پر والیِ سوات کی حکومت تھی۔ وہ والیِ سوات سے ملے اور 1956ء میں بت کڑہ کی کھدائی پر کام شروع کیا، جس سے سوات عجائب گھر تعمیر ہوا۔ اس کا افتتاح 1964ء میں اُس وقت کے صدر محمد ایوب خان نے کیا۔دوسری جانب پروفیسر ٹوچی نے سوات کے آثارِ قدیمہ سے اٹلی میں اپنا عجائب گھر سجایا جو سوات کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ بت کڑہ کے آثار اپنی جگہ اہم ہیں، جنہیں دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں بدھ مت زائرین ہر سال آتے رہتے ہیں۔ایک دفعہ ایڈیشنل وفاقی سیکرٹری سید جنید اخلاق صاحب جن کے پاس پاکستان کے عجائب گھروں، کلچر اور ادب کا قلم دان بھی تھا، سوات آئے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم اس وقت سوات کے خزانے کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم اس خزانے کا منھ نہیں کھول سکتے۔ اُن کا اشارہ سوات میں زیرِ زمین دفن آثارِ قدیمہ کی طرف تھا۔ مطلب یہ کہ اللہ نے سوات کو بہت کچھ دیا ہوا ہے، جس میں سیاحت، تاریخی آثارِ قدیمہ کے مقامات سب کچھ شامل ہے، لیکن ملک کی معاشی ترقی کے لیے آج تک ہم نے بین الاقوامی سطح پر ڈس کورس تک متعارف نہیں کیا، جس سے پاکستان کے زرِ مبادلہ میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔ یہاں میرا مدعا سوات کی سیاحت ہے، جس کے سربراہ جنید خان ڈپٹی کمشنر سوات ہیں۔کھیل کود کے فروغ میں بھی ڈپٹی کمشنر سوات نے کھیل کے میدانوں کو بہتر بنانے کی خاطر اقدامات کیے ہیں۔ وہ سوات میں غیر قانونی تجاوزات ختم کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور جو لوگ دریائے سوات کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں، جگہ جگہ دریائے سوات سے بجری اور ریت نکال رہے ہیں، اُن کے خلاف کارروائی کررہے ہیں۔ غیر قانونی کرش پلانٹ اور کرش مافیا کے خلاف مختلف اقدامات کررہے ہیں۔ اگر چہ یہ اُن کے منصبی فرائض ہیں لیکن اس سے ہٹ کر انہوں نے اہلِ سوات کے لیے ایک بہتر قدم اٹھایا ہے اور وہ ہے ’’رواج نامہ سوات‘‘ کو بہتر انداز میں دوبارہ شائع کرنا۔1973ء سے اب تک رواج نامہ کے تین ایڈیشن رَف انداز میں شائع ہوئے ہیں، لیکن ڈپٹی کمشنر صاحب اس کی قدر سے اشنا تھے۔ اس کی اِفادیت اور ضرورت کو سمجھتے ہوئے بہترین گٹ اَپ میں، بہترین آرٹ پیپر پر اپنے خرچے سے شائع کررہے ہیں۔قارئین، رواج نامہ سوات، بادشاہ صاحب اور والیِ سوات کے دورِ حکومت کی ایک یادگاری دستاویز ہے، جس کو 1973ء میں اُس وقت کے کمشنر ملاکنڈ ڈویژن شیخ جمیل احمد صاحب، اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر محمد عثمان خان ہاشمی صاحب، غلام حبیب خان سپرنٹنڈنٹ ڈی سی آفس اور سوات کے مایہ ناز ادیب، شاعر اور خطاط فضل رحمان فیضان سوات نے اَن تھک محنت اور کوشش سے کئی سالوں کی عرق ریزی کے بعد ’’رواج نامہ سوات‘‘ کو دستاویزی شکل دی۔سوات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ایران کے بادشاہ سائرس اعظم نے سوات کو اپنے قلمرو میں شامل کیا تھا۔ بعد میں سکندرِ اعظم یونانی 326قبل مسیح میں سوات پر حملہ آور ہوا تھا۔ یہاں وہ لڑائی میں زخمی ہوا تھا۔ سوات ہی میں انہوں نے روشنک (رخسانہ) سے شادی کی تھی۔سلطان محمود غزنوی بھی 11ویں صدی کے آغاز میں سوات پر حملہ آور ہوا تھا۔ سوات کو فتح کرتے ہوئے راجہ گیرا کو اُوڈی گرام میں شکست دی اور اسلام کو سوات میں پھیلایا۔اس طرح مغل حکمران بابر بھی سوات پر حملہ آور ہوا تھا، لیکن جنگ کی بجائے بی بی مبارکہ سے شادی کی اور اہلِ سوات کا داماد بن کر ہندوستان پر جنگ میں فتح حاصل کی اور نتیجتاً ہندوستان میں مغل حکومت کی بنیاد بھی رکھی۔ واضح رہے کہ وہ یوسف زئی قوم سے جنگ کرنے سوات آئے تھے۔پانچ سو سال پہلے یوسف زئیوں نے 17 سال میں سوات کو فتح کیا تھا۔ جو اَب تک سوات اور پورے مردان ڈویژن اور ملاکنڈ ڈویژن میں آباد چلے آرہے ہیں۔1917ء میں میاں گل عبدالودود نے سوات میں جدید حکومت کی بنیاد رکھی اور 1926ء میں انگریز حکومت نے سوات میں بادشاہ صاحب کی حکومت کو تسلیم کیا۔ بعد میں میاں گل عبدالحق جہانزیب کو والی عہد بنایا گیا۔ دسمبر 1949ء میں والیِ سوات جہانزیب نے سوات کا اقتدار سنبھالا۔ اس کے بعد ریاستِ سوات کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ اگست 1969ء میں جنرل یحییٰ خان نے دیر، سوات اور چترال کی ریاستوں کو پاکستان میں مدغم کیا اور انہیں ضلع جات کی حیثیت دے دی۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ’’رواج نامہ سوات‘‘ کیا ہے؟قارئین، مختصر الفاظ میں رواج نامہ سوات ’’جدید ریاستِ سوات‘‘ کی تاریخ ہے۔ یہ والیِ سوات کی حکمرانی میں صادر کیے جانے والے جملہ احکامات، ہدایات، فیصلے، سوات میں اُن کے مشیروں اور حاکموں کے جملہ اقدامات کی ایک دستاویز ہے۔والیِ سوات کی حکمرانی میں انصاف آسانی سے میسر تھا۔ سب کو فوری انصاف ملتا تھا۔ تعلیم مفت تھی۔ علاج مفت تھا۔ سوات میں سرکاری ملازمت کے مواقع سب کو میسر تھے۔ مثلاً پولیس، فوج، کلرک، اُستاد، کمپوڈر، ڈاکٹر وغیرہ ساری نوکریوں کے لیے صرف تعلیم شرط تھی۔پاکستان میں سوات کے ادغام کے بعد حالات یکسر تبدیل ہوگئے۔ اب پورے ملاکنڈ ڈویژن میں اعلا عدالتوں کے علاوہ ڈویژن اور ضلع بھر کے افسران مدتوں بعد بھی لوگوں کو سستا انصاف فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ فوری انصاف مہیا کیا جائے، لیکن سسٹم کچھ ایسا ہے کہ چاہتے ہوئے بھی اس میں ناکام چلے آرہے ہیں۔ اس لیے ’’رواج نامہ سوات‘‘ کو اگر اپنایا جائے، تو انصاف کے حصول میں کافی مدد مل سکتی ہے۔اس کے علاوہ یہ ہمارے جیسے لوگوں کے لیے یہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔