ایڈو کیٹ صیاد حسین ترکئی

عام طور یہ پروپیگنڈہ تقریباً ہر گھر اور حجرے کا بحث بن گیا تھا کہ محکمہ پولیس میں اصلاحات اور پولیس آرڈر 2000 کے باوجود عوام پولیس کو اپنی پولیس اور اپنے محافظ نہیں سمجھتے بلکہ یہ خبر عام ہوچکی تھی کہ برطانوی نظام کے تحت بنا ہوا پولیس کا یہ نظام اُس زمانے سے لیکر آج تک امن و امان کے قیام اور عوام کی جان ومال اور عزت و آبرو کے تحفظ سے زیادہ پہلے تاج برطانیہ اور آج وزراء کے تحفظ اور رعب داب میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔

لیکن یہ ایک عام سی بات ہے کہ ہر معاشرے ،ہر محکمے اور ہر خاندان کے تمام افراد ایک جیسے نہیں ہوتےبالکل اسی طرح اگر ہم پاکستان کے دیگر صوبوں کی پولیس کے نظام اور خیبرپختونخوا پولیس کا ایک تقابلی جائزہ لیں تو پختونخوا پولیس ایک فورس کی عکاسی کرتی ہے ۔

دیگر صوبوں کی پولیس کی کارروائیوں پر اگر نظر دوڑاٸ جاۓ تو یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ وہ لوگ چادر اور چار دیواری کو پامال کرکے خواتین اور بچوں پر تشدد ،تذلیل ،ظلم اور بربریت سے باز نہیں آتے ۔

اسکے برعکس اگر ہم خیبر پختونخوا پولیس کا جائزہ لیں تو یہاں کی پولیس کاسسٹم دیگر صوبوں کے سسٹم سے کافی پراثر نظر آرہا ہے ۔
تقریباً 133 برس قبل یہ نظام عمل میں لایا گیا تھا آج تقریباً 120000 کی تعداد پر یہ فورس مشتمل ہے آئی جی خیبرپختونخوا پولیس جناب معظم جاں انصاری نے میڈیا کے نمائندے سے بات کی تھی کہ یہ پختونخوا پولیس بہادروں ،دلیروں،جان نثاروں ،غازیوں اور شہیدوں کی فورس ہے واقعی ایسا ہی ہے اور اس فورس کی قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ رواں سال بھی تقریباً 35 جوانوں نے جام شھادت نوش کیا ہے ۔اس فورس نے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا خواہ وہ دہشتگردی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر مقابلہ ہو،اس سر زمین سے فتنہ فساد کے خاتمے کیلئے کفن باندھ کر میدان میں کھڑا ہونا ہو یا سیلابوں ،دریاوں،زلزلوں اور الیکشن و پولیو کے دوران فرائض نبھانا ہو۔

اسکے ساتھ خطے میں امن و امان کی فضاء کو قائم کرنا ہو،یا عوام کے دیگر مسائل کو حل کرنا ہوں یہ ہر محاذ پر عوام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور ہمیشہ کیلئے ان کے دل جیتنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں خواہ وہ سمگلنگ اور منشیات کے خلاف جہاد ہو یا عوام کی خدمت ہو۔
اسکے ساتھ ساتھ عوام کی خدمت کے جذبے سے سر شار یہ فورس کسی بھی قسم کی قربانی اور خدمت سے پیچھے نہیں ہٹتی اور ہمیشہ عوام کے مسائل کو حل کرنے کیلئے کوشاں رہتی ہے ۔گزشتہ روز ملک کے دیگر علاقوں کی طرح خیبرپختونخوا میں سیلابی ریلیاں عوام کے سامنے پریشانی کے چٹان بن گٸے تھے بالعموم صوبے کے ہر ضلعے اوربالخصوص ضلع صوابی پولیس نے ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر نور الامین خان کے زیر سایہ پورے ضلع کے عام عوام کو بہتر سے بہتر حالات فراہم کرکے بے شمار متاثرین کو ریسکیو کیا اور اس پریشان کن ماحول میں جو فرائض انجام دئے وہ واقعی قابلِ تعریف ،قابل تحسین اور قابل ذکر ہیں ۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پختونخوا پولیس ایک فورس بن چکی ہے اور آج یہ فورس کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتی لیکن اگر انکے فرائض کو دیکھا جائے اور دوسری جانب انکی تنخواہوں ،مراعات اور دیگر سہولیات پر نظر دوڑائی جاۓ تو اسمیں کافی حد تک نظر اندازی کی ناقابل برداشت صورتحال سامنے آجاتی ہے۔

یہ فورس وزیروں ،مشیروں اور دیگر VIP کلچر کے تحفظ سے لیکر عوام کی خدمت تک کے سفر اور فرائض انجام دینے کے بدلے اس قابل رحم ادارے کے جوانوں کی تنخواہیں، مراعات اور سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اس فورس کو اپنے حق سے نوازنے کی بجائے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ہمیشہ کیلئے اس فورس کو اپنی سیاست چمکانے کیلئے استعمال کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔

جیسا کہ اس ادارے کے کارنامے،قربانیاں،اور فرائض بہت ذیادہ ہیں بالکل اسی طرح ظلم و زیادتیوں کی کہانیاں اور داستانیں بھی بے شمار ہیں یہ فورس تقریباً 3کروڑ 60 لاکھ عوام کی فورس ہے اور عوام کی عزت وآبرواور مال و دولت کے تحفظ کا زمہ اس محکمے نے لیا ہے لیکن بدلے میں عوام کی جانب سے حکمران کلاس بجٹ میں صرف اور صرف 28,534 ملین روپے دیتے ہیں جو نہایت قلیل رقم ہے۔

صرف یھی نہیں بلکہ اس فورس کے دیگر فرائض کے ساتھ ساتھ پولیو اور الیکشن کے دوران فرائض انجام دینے کے بدلے دیگر محکموں بشمول محکمہ تعلیم کے ملازمین کو سپیشل الاؤنسز سے نوازتے ہیں لیکن وہاں بھی یہ مظلوم طبقہ محرومیوں کا شکار ہو جاتاہے۔ اور اُف تک نہیں کرتا کیونکہ قانون اس محکمے کو ہڑتال،احتجاج اور فرائض سے عارضی طور سبکدوش ہونے کی اجازت نہیں دیتا اور ہمارے ہاں اب یہ رواج عام ہوچکا ہے کہ حق کو لینے کیلئے نہیں بلکہ چھیننے کیلئے آواز اٹھانی ہوگی۔

میرے خیال سے خیبرپختونخوا پولیس کو اگر حقیقی طور پر مثالی پولیس کا درجہ دینا ہے توصوبائی حکومت کو پولیس بجٹ میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس محکمے کے جوانوں اور انکے اہل و عیال کی صحت اور تعلیم کے اخراجات احسن طریقے سے پورے کرنےچاہئے اور محکمہ پولیس کے اعلیٰ آفیسروں کو چاہئے کہ ماتحتوں کا مقدمہ خود لڑیں اور ان سو سال سے محروم طبقے کے حق کے لئے آواز بن جائیں اور پھرصوبائی حکومت کے مراسلے اور قا نون کے تحت ٹرانسپورٹ اڈے اپنے ذمے لیے جائیں اور پولیس فاؤنڈیشن کو فوجی فاؤنڈیشن کی طرح مضبوط بنایا جائے۔ورنہ اگر محرومی کا یہ سلسلہ برقرار رہا تو کرپشن، رشوت خوری، من گھڑت کارروائیاں اور دیگر صوبوں کی طرح عدم اعتمادی کا نہ ختم ہونےوالا سلسلہ کوئی بھی نہ روک پاۓگا ۔

پولیس کے اعلیٰ افسران بالخصوص ریجنل پولیس افسران اور سینٹرل پولیس آفیسرز کو چاہئے کہ عوام کے ساتھ روابط مضبوط کرائیں خفیہ معلومات اور عوام کے دلوں پر راج کرنے کیلئے کمیٹیوں کو تشکیل دیں اور عوام و پولیس کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دیں اور ایک ایسی فضاء قائم کریں کہ عام عوام پولیس کو صحیح معنوں میں اپنے محافظ تسلیم کریں۔

اور محکمے کو ایسے کالے بھیڑیوں سے خالی کرائیں جو اس مقدس وردی کو پہن کر ملزمان ،مجرمان اور قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو معاونت فراہم کرتا ہے یا خود اسکا حصہ بن کر اس فورس کو بدنام کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

پولیس اور عوام الناس کے درمیان دوستانہ تعلقات ،مضبوط روابط ، جرائم کے خاتمے کیلئے پولیس کے سہولت کار اور پولیس پر اعتماد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اگر یہ فضاء قائم نہ ہوئی تو عوام کبھی بھی اس محکمے کو اپنا فورس تسلیم نہیں کرینگے اور جب تک عوام اسکو اپنا محافظ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے تب تک اس ادارے کو مثالی فورس اور مثالی پولیس کہنا بے جا ہوگا۔

خیبرپختونخوا پولیس زندہ باد