ہم دیکھیں گے
روح الامین نایابؔ
اور ہم ضرور دیکھیں گے کہ ایسا کون سا انسان ہے، ایسی کون سی ہستی ہے جو پشاور کے PK-78 میں شہید ہارون بلور کی بیوہ کے مقابلے میں انتخابی مقابلہ کرے گا؟ ہمارا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ خدانخواستہ ہم کسی کے جمہوری حق پر قدغن لگانا چاہتے ہیں۔ انتخاب لڑنا ہر پاکستانی کا بنیادی و جمہوری حق ہے، لیکن کچھ واقعات و حادثات ایسے ہوتے ہیں جو عام روایت اور دستور سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ یہ نازک باتیں احساس، ضمیر اور اخلاقی اقدار سے تعلق رکھتی ہیں، لیکن اس معاشرہ میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو ضمیر، احساس اور اخلاقی اقدار کی حدود کو نہیں مانتے۔ وہ ہر حد کو پھلانگ کر فخر محسو س کرتے ہیں۔
حالاں کہ اصل میں وہ کچھ پاتے نہیں، سب کچھ کھوجاتے ہیں، وہ جیت کر بھی بری طرح ہار جاتے ہیں۔
بشیر بلور کی شہادت اور اُس کے بعد ہارون بلور کی شہادت، لہو کی قربانی کچھ ذاتی مفاد کے لیے نہیں تھی اور نہ یہ شہادت کوئی ذاتی جھگڑے، زمینی یا جائیداد کے تنازعے کا شاخسانہ تھی۔ یہ قربانی تو دہشت و خوف کے خلاف امن و سکون کے لیے، مخلوقِ خدا کے لیے تھی جو اس دھرتی پر امن اور و سکون سے رہنا چاہتے ہیں جو ہر ذی روح کا بنیادی حق بھی ہے۔
ہم یہ چاہتے ہیں کہ مروت، روا داری اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی بھی پختون اور پاکستانی PK-78 پر ہارون بلور شہید کی بیوہ کے مقابلے میں انتخاب نہ لڑے اور تو کچھ نہیں یہ ہارون بلور کی شہادت اور قربانی کا اعزاز ہوگا، ایک احترام ہوگا۔ ہارون بلور خاندان کی شہادت اور قربانیوں کا اعتراف ہوگا جو ہر باضمیر اور خود دار انسان کو ببانگ دہل کرنا چاہیے۔
ہم دیگر سیاسی پارٹیوں سے بھی مؤدبانہ گزارش کریں گے کہ وہ ہارون بلور شہید کی بیوہ کو یہ سیٹ بلامقابلہ تحفہ کریں۔ انہیں انعام دیں، عزت و احترام دیں۔ بخدا ہمارا مؤقف اُس وقت بھی ایسا ہی ہوتا اگر یہ شہادت ہارون بلور کی بجائے کوئی اور دیتا۔ وہ کوئی بھی ہوتا، ہمارے دل میں اُس کا احترام اُتنا ہی ہوتا جو آج ہارون بلور کے لیے ہے۔ ہمارا قلم وہی لکھتا جو اَب ہارون بلور شہید اور اُس کی بیوہ کے لیے لکھ رہا ہے۔ ہم شخصیات کا نہیں، قربانی اور شہادت کا احترام کرتے ہیں۔
حقیقت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام سیاسی پارٹیاں ہارون بلور کی شہادت میں اے این پی کے ساتھ سہ روزہ سوگ میں شریک ہوتیں اور اپنی سیاسی سرگرمیاں معطل کرتیں، تو دہشت گردی کے خلاف ایک اتفاق، متحدہ اور ٹھوس پیغام دنیا کو مل جاتا۔ ایک خوشگوار، شائستگی اور جمہوری رواداری کا ماحول بن جاتا، لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔
پاکستان میں سیاسی پارٹیوں اور سیاسی جدوجہد کے حوالے سے ایسی رواداری کی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں سیاسی اختلاف اکثر ذاتی اختلافات اور جھگڑوں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہاں کسی کی قربانیوں اور سیاسی خدمات کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔ یہاں جھوٹ اور ہٹ دھرمی سے ساری برائیاں اور خامیاں دوسروں کے سر تھوپ دی جاتی ہیں اور ساری اچھائیوں کا سہرا اپنے سر باندھ لیا جاتا ہے۔
شہادت کا بدلہ اور انتقام نہیں لیا جاتا اور نہ کبھی لیا جاسکتا ہے۔ ہارون بلور شہید اور اُس کے ساتھ اب تک بائیس شہدا کا بدلہ اور انتقام ہم اس طرح لے سکتے ہیں کہ ہم آنے والی پچیس جولائی کو زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالنے کے لیے نکلیں۔ بغیر خوف اور ڈر کے جلوسوں اور گرپوں میں جمہوریت کے ترانے گاتے ہوئے جوش و جذبہ سے بھر پوراپنا ووٹ امن اور محبت کے لیے ڈال دیں۔ بشیر بلور شہید اور اُس کے بیٹے ہارون بلور کی شہادت اور قربانیوں کا یہی مقصد ہے کہ جمہوریت رواں دواں رہے۔ انہوں نے قربانی، جمہوری رواداری، شائستگی، محبت اور امن کے لیے دی ہے، اخلاقی اقدار کے لیے دی ہے۔ سنانے اور خود سننے کی برداشت کے لیے دی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ سیاسی اختلاف گالی گلوچ، غیر شائستہ اور غیر پارلیمانی الفاظ اور رویے کی بجائے مسکرا کر کیا جائے۔ نفرتوں کی بجائے محبتوں کو فروغ دیا جائے۔ ہر سیاسی اختلاف کو ضد اور انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔
ہمیں بحیثیت پختون بلور خاندان کی شہادتوں کا مقصد سمجھنا چاہیے۔ شہادتوں کا مقصد اور پیغام صرف اے این پی والوں کے لیے نہیں، بلکہ تمام پختونوں کے لیے ہے۔ خواہ اُن کا کوئی بھی نظریہ ہو اور کوئی بھی سیاسی پارٹی ہو۔ ورنہ بشیر بلور اپنی تمام جائیداد فروخت کرکے باہر کسی خوبصورت ملک میں بال بچوں سمیت آرام سے زندگی گزارسکتے تھے۔ لیکن بلور خاندان کا اپنی شہادت سے پیغام دینا مقصود تھا کہ پختونخوا میں ہر پختون اپنے گھر اور اپنی زمین پر پُرامن اور آرام سے زندگی گزار سکے۔ سرزمینِ پختونخوا امن کا گہوارہ بن جائے۔
ان تمام باتوں اور حقائق کے باوجود ہم پچیس جولائی کو بھی دیکھیں گے اور پچیس جولائی کے بعد اُس ضمنی الیکشن کا انتظار کریں گے جس میں ہارون بلور کی بیوہ PK-78سے انتخابات میں حصہ لیں گی۔ ہم دیکھیں گے اور ضرور دیکھیں گے کہ ہماری اُمیدوں، خواہشوں اور خوش فہمیوں کا پاس رکھا جائے گا یا انہیں پاؤں تلے روندا جائے گا۔
مہتاب صفت لوگ یہاں خاک بسر ہیں
ہم محو تماشائے سر راہ گزر ہیں