عبدالقیوم بلالا، سر سینئ تحصیل کبل سوات کے رہنے والے ہیں۔ وہ ادیب ہیں، شاعر ہیں…… پشتو، اُردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ 80 کے پیٹے میں ہیں۔ اعلا تعلیم یافتہ ہیں۔ اُن کی پسندیدہ سواری بائیسکل ہے۔ ان کے پاس پانچ سائیکلیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’جب مینگورہ آؤں اور روخان (راقم) کو دیکھے بنا چلا جاؤں، تو ادھورا پن سا محسوس ہوتا ہے۔‘‘
ہر ہفتے مجھے ملنے آتے ہیں۔ بڑی پیاری پیاری باتیں کرتے ہیں۔ بلالا کا بیٹا لندن میں ڈاکٹر ہے، جنھوں نے ایک ڈبا بند اعلا کوالٹی کی سائیکل لندن سے سواری کے لیے بھیجی ہے۔ اُن کا دوسرا بیٹا چائینہ میں پی ایچ ڈی کا طالب علم ہے۔ باپ کی محبت میں اُس نے وہاں سے بھی ایک قیمتی سائیکل بھیجی ہے۔
بلالا کراچی کا سفر سائیکل پر کرچکے ہیں۔ کابل کے لیے سائیکل پر رختِ سفر باندھا تھا، لیکن جلال آباد میں دورہ مختصر کرکے کسی وجہ سے وطن واپس آگئے۔
مختلف ادوار میں زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے دیس، پردیس دونوں میں ملازمت کرچکے ہیں۔ اس وقت گاؤں میں اپنا پرائیویٹ سکول چلا رہے ہیں۔ کبھی کبھی ازراہِ مذاق مَیں اُن سے کہتا ہوں کہ اپنی پرانی سائیکل قیمتاً مجھے دے دیں، تاکہ میں بھی پطرس بخاری کی سائیکل کی یاد تازہ کر سکوں…… لیکن وہ نہیں مانتے۔ اُنھیں اپنی تمام سائیکلیں بہت عزیز ہیں، اس لیے وہ انھیں فروخت کر نے پر آمادہ نہیں ہوتے۔
ایک دن وہ کَہ رہے تھے کہ جب مَیں پٹواری تھا، تو خریدی ہوئی جائیدادوں کے فارسی زبان میں لکھے ہوئے اسٹام بھی لوگ ثبوت کے لیے لے آتے تھے۔ جب مَیں نے یہ سنا، تو حیرانی سے اُن سے پوچھا کہ کیا ہمارے لوگوں کے پاس فارسی زبان میں لکھے ہوئے اسٹام بھی ہوا کرتے تھے؟ اُنھوں نے کہا کہ ہاں میاں گل عبد الودود باچا صاحب کی حکومت سے پہلے سید عبدالجبارشاہ اور اُن سے بھی پہلے سید اکبر شاہ باچا کے دورِ حکم رانی میں سوات کی دفتری زبان فارسی تھی۔ لکھت پڑھت فارسی میں تھی۔
قارئین! یہ میرے لیے انکشاف تھا۔ پھر میرا دھیان میرے اپنے خاندانی شجرۂ نسب کی جانب چلا گیا، جو ہمارے پرکھوں نے باقاعدہ ایک درخت کی شکل میں فارسی میں تحریر کیا تھا۔
اس کے بعد میرا دھیان میرے بزرگوں کے قلمی قرآنِ کریم کے نسخہ کی جانب گیا، جس پر کاتب نے اپنا نام تو نہیں لکھا ہے کہ کہیں اُس کا ثواب ضائع نہ ہو۔ البتہ اُس پر سنہ 1096 ہجری لکھا ہوا ہے۔ اُس قلمی نسخے میں سیاہی کے علاوہ سونے،چاندی اور پکھراج کے پانی سے کام لیا گیا ہے۔ اس نسخے کے اختتام پر جو سیالکوٹی کاغذ پر لکھا گیا ہے، چند صفحات خالی رکھے گئے ہیں۔تو اس پر ٹھاکری میں کچھ لکھا گیا ہے۔ ایک آدمی ٹھاکری پڑھ سکتا تھا۔ اُس نے پڑھ لیا۔ مجھے تجسس اس بات کی تھی کہ اس میں میرے بزرگوں کی باتیں ہوں گی…… لیکن اُس میں گھوڑے کی زین اور کاٹھی کے بارے میں تحریر تھا۔
ہاں، تو مَیں فارسی زبان میں اسٹام کی بات کر رہا تھا کہ سید عبدالجبارشاہ باچا بہت پڑھے لکھے، عالم فاضل شخص تھے…… لیکن اُن کی دفتری زبان فارسی تھی۔ جب میاں گل عبدالودود نے سوات میں حکومت بنائی، تو اُنھوں نے اپنی پہلی فرصت میں فارسی کی بجائے پشتو کو سرکاری/ دفتری زبان یہ کَہ کر قرار دیا کہ لوگوں کی زبان پشتو ہے، تو عوامی زبان پشتو بھی سرکاری اور دفتری زبان ہونی چاہیے۔ میاں گل عبدالودود باچا صیب اَن پڑھ تھے، لیکن پھر بھی اُنھوں نے پشتو زبان و ادب کی جانب بھر پور توجہ دی اور مختلف زبانوں سے کتابوں کے ترجمے کرائے۔
بعد میاں گل جہانزیب نے پشتو زبان و ادب کو ترقی دی۔ پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی کے مولانا عبدالقادرسے اُن کا رابطہ تھا۔ اُنھوں نے جہانزیب کالج کے پشتو ادب کے پروفیسروں کی تنخواہوں کو پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر کی تنخواہوں کے برابر رکھا۔ اس کے علاوہ جہانزیبی سالانہ مشاعرے کی بنیاد رکھی، جس میں سرکاری طور پر پورے پختونخوا کے شاعروں کو مدعو کیا جاتا تھا، لیکن 1969ء کو ریاستِ سوات کو پاکستان میں ضم کیا گیا، تو پشتو کی جگہ اُردو نے لے لی۔
اگر ہمارے بڑے پشتو سرکاری زبان کی بحالی کے لیے قانونی راہ اختیار کرتے، تو پشتو زبان سرکاری حیثیت سے برقرار رکھی جاسکتی تھی۔
آمدم برسرِ مطلب! ایک دفعہ عبدالقیوم بلالا نے مجھے بتایا تھا کہ ریاستِ سوات کے دورِ حکومت میں سیف الملوک صدیقی کے بڑے بھائی تور لالا مردان میں سڑک حادثے میں جان بحق ہوگئے۔ والئی سوات نے جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے چند بڑے راہ نماؤں کو ریاست بدر کیا تھا، جن میں کبل کے تور لالا بھی شامل تھے۔ تور لالا کے فاتحے کے لیے مولانا مودودی صاحب سوات آئے۔
عبدالقیوم بلالا کے بقول: مَیں اُس وقت فاتحہ میں شریک تھا۔ اُس وقت مولانا مودودی (مرحوم) نے ریاستِ سوات کے حوالے سے اپنے لوگوں سے کہا کہ ریاستِ سوات کا وجود ختم کرنے کی کبھی کوشش نہ کریں، بلکہ اس کو قیام و دائم رکھنے کے لیے کام کریں۔ اگر تمھیں حکومت سے یااس کے کسی کارندے سے کوئی شکایت ہے بھی، تو اس کے خلاف قانونی قدم اُٹھائیں، لیکن ہر حال میں ریاستِ سوات کے وجود کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔‘‘
بلالا کہتے ہیں کہ مولانا مودوی (مرحوم) ایک رات ریاستِ سوات کے سرکاری مہمان رہے۔ اگلے روز وہ واپس چلے گئے۔