ایچ ایم کالامی
صبح سے شام تک لیپ ٹاپ میں دماغ کھپانے کے باعث جب ذہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہوں، تو آفس سے نکلتے ہی بائیک کو کِک مارتا ہوں اور کالام کے میدانی جنگل کی طرف نکل پڑتا ہوں، جب جنگل میں داخل ہوجاتا ہوں، تو بائیک کے سائیلنسر کی آواز پرندوں کی چہچہاہٹ میں معدوم ہوجاتی ہے، جب معطر ہواؤں میں کھڑے لمبے لمبے درختوں کے پتوں پر نظر پڑتی ہے، تو آفس کے بکھرے فائلوں کی جھنجھٹ دماغ سے اڑنچو ہوجاتی ہے۔
اپنی کھال میں مست ہوکر ہولے ہولے اس میدان، اس سنسان جنگل کے بیچ پہنچ جاتا ہوں، جہاں اپنی ایک الگ دنیا بسی ہوتی ہے۔ جنگل کے بیچ میں ایک گول سبزہ زار میدان ہے، جہاں مقامی نوجوان دنیا و ما فیہا سے بے خبر کھیلوں میں مشغول رہتے ہیں۔ میں بھی وہاں موجود کسی درخت سے ٹیک لگاگر اس منظر میں غرق ہوجاتا ہوں اور دن بھر کی تھکان بھگاکر واپس لوٹ آتا ہوں۔
ابھی چند دنوں سے اس گراؤنڈ میں مقامی نوجوانوں نے کرکٹ ٹورنامنٹ بھی بنایا ہے۔ یہاں کے نوجوان صرف ٹینس بال کے اوپر ٹیپ چڑھاکر کھیل سکتے ہیں، یہاں ہارڈ بال کا تصور ہی نہیں، لیکن سہولیات کے فقدان کے باوجود بھی کرکٹ کے ایسے کھلاڑی موجود ہیں جن کے چھکے بلند آہنگ درختوں کے اوپر سے اس طرح نکل جاتے ہیں کہ گیند بمشکل نظر آتی ہے، بلکہ گلی کوچوں اور ایسے چھوٹے موٹے میدانوں میں کھیلتے ہوئے کئی نوجوان اس حد تک اپنا لوہا منوا چکے ہیں کہ اب وہ پنڈی اور اسلام آباد کے اکیڈمیوں میں ضلعی اور صوبائی سطح کے میچ کھیل سکتے ہیں۔ اس طرح فٹ بال، مارشل آرٹس اور دیگر کھیلوں میں بھی سوات کوہستان کے کئی نوجوان یدِطولی رکھتے ہیں، لیکن شومئی قسمت کہ کسی بھی کھیل میں حکومتی سطح کی حوصلہ افزائی نظر نہیں آتی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سہولیات کے شدید فقدان کے باوجود ان پہاڑوں میں ایسے کرکٹرز، فٹ بالرز اور کِک باکسر سے لے کر مارشل آرٹس کے تمام کھیلوں میں نام کمانے والے نوجوان موجود ہیں، جن کو اگر حکومتی سطح پر معمولی سرپرستی بھی حاصل ہوجائے، تو ممکن ہے کہ وہ ملکی ٹیموں کو بھرپور سہارا دے جائیں، لیکن بارے اس کا بھی کچھ بیان ہوجائے کہ کھیل کی دنیا سے سیاست کے میدان تک سفر کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت صوبہ خیبر پختونخوا میں ایسے نوجوانوں کے لیے اب تک کیا کرسکی ہے؟
قارئین کرام! آپ کو یاد ہو یا نہ ہو، ہمیں یاد ہے ذرا ذرا سا نہیں بلکہ پوری طرح کہ خیبر پختونخوا حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد تحریک انصاف حکومت نے ہر تحصیل کی سطح پر کھیلوں کے گراؤنڈ تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد پہلی دفعہ جب عمران خان صاحب نے وادئی کالام کا دورہ کیا، تو جہاز سے اترنے کے بعد جیسے ہی ان کی نظر وادئی کالام کے ایک وسیع میدان پر پڑی، تو انہوں نے فوراً یہاں ایک عالمی سطح کا کرکٹ گراؤنڈ بنانے کا وعدہ کیا تھا، اس دورے کے دوران میں ان کے ساتھ سینئر صحافی سلیم صافی صاحب بھی موجود تھے۔ شائد کبھی فرصت ملے، تو وہ بھی اس دورے کی روداد قارئین کرام کو سنا جائیں، مگر تادمِ تحریر سٹیڈیم تو کجا چھوٹے پیمانے کا کوئی گراؤنڈ بھی یہاں تعمیر نہ ہوسکا۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا جناب محمود خان گذشتہ دورِ حکومت میں صوبائی وزیرِ کھیل رہ چکے ہیں، مگر اب تک کتنی تحصیلوں میں اور کون کون سے علاقوں میں کھیلوں کے میدان آباد کرسکے؟ یہ سیدھا سادا سوال شائدان کی طبیعت پر گراں گزرے، مگر ہم عوام کے پاس فریاد سنانے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ اس لیے سوات کوہستان کے چند علاقوں کے نوجوانوں کی فریاد ایک بار پھر ان کے گوش گزار کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔
آج سے غالباً دو سال قبل تحصیل بحرین کے گاؤں مانکیال کے نوجوان سراپا احتجاج تھے کہ وہ دریا کنارے پتھریلی زمین پر کھیلنے سے عاجز آچکے ہیں اور کھیلوں کے مواقع نہ ہونے کے باعث نوجوان مسلسل غیر سماجی سرگرمیوں اور نشے کی لعنت میں مبتلا ہورہے ہیں، ہم نے بار بار ان نوجوانوں کی فریاد کو نوک قلم پر لایا مگر کھیل کا محکمہ ٹس سے مس نہ ہوا، اور وہاں کے نوجوانوں کی حالت آج بھی جوں کی تو ہے۔
اس کے بعد ایک سال قبل کالام بیوٹیفکیشن پلان کے نام سے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے ڈیڑھ ارب کا منصوبہ شروع کیا، جس میں ایک عدد کھیل کا میدان بھی تعمیرکرنا شامل تھا، مگر منصوبہ آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے اور کھیل کا کوئی میدان دور دور تک نظر نہیں آرہا۔
اب پاکستان تحریک انصاف نے دہشت گردی سے متاثرہ سواتی عوام کے دکھوں کا مداوا محمود خان کو وزارت اعلیٰ دینے کی شکل میں کیا ہے، جس سے مایوسی کے سائے مٹ رہے ہیں۔ امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے، جناب محمود خان صاحب کے فرائض منصبی سنبھالنے کے بعد ’’ضلع اپر سوات‘‘ کے دیرینہ مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ، سوات کوہستان میں جنگلات کا تحفظ اور ٹمبر سمگلنگ کی روک تھام پر فوری کام شروع کرنے کے بعد ہم بھی ہر مسئلے کو اس اعتماد کے ساتھ اپنے قلم کے ذریعے اجاگر کرنے کی ٹھان لیتے ہیں کہ اس پر ’’خپل وزیر اعلیٰ‘‘ ضرور نظرِالتفات ڈالیں گے۔ تو وزیر اعلیٰ صاحب، کیوں نہ اک نظر کھیلوں پر بھی ہو؟