لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)کے چیئرمین عثمان مبین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پختونوں کے شناختی کارڈ کا مسئلہ40 سال پرانا ہے یہ ایک دن میں حل نہیں ہوسکتا۔لاہورمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شناختی کارڈ کے اجرا کے حوالے سے کسی قومیت کے باعث یا تعصب کی وجہ سے مسائل نہیں ہیں۔ پختونوں کے شناختی کارڈ کے بلاک ہونے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 3 وجوہات کے بنا پران کے شاختی کارڈ بلاک ہوئے ان میں سے ایک وجہ اہلخانہ کے افغانی ہونے کی شکایت،دوسری وجہ کسی افغانی کو بھائی ظاہر کرنے اور تیسری وجہ پاکستانی شاختی کارڈ رکھتے ہوئے افغان پاسپورٹ لیناہے ۔انہوں نے بتایا کہ لاہور میں زار شہید روڑ پر پختونوں کے شناختی کارڈ بنانے کے لیے دفتر قائم کر دیا گیا ہے، جبکہ بلاک شناختی کارڈ کے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔چیئرمین نادرا نے کہا کہ پاکستان میں شناختی کارڈ کے حوالے سے ایک لاکھ 55 ہزار درخواستیں زیر التوا ہیں جن کے پاس افغان پاسپورٹ بھی ہے، تاہم یہ 40 سالہ پرانا مسئلہ ہے جو ایک دن میں حل نہیں ہو سکتا۔عثمان مبین نے کہا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے وزارت داخلہ کو سفارشات بھجوائی جائیں گی۔سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جاچکا ہے اور اس ضمن میں ایک نظام بھی مرتب کیا جاچکا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس نظام کے فعال کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا جبکہ آئندہ برس ہونے والے ضمنی انتخاب میں اس کے استعمال کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں آر ٹی ایس سسٹم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ نادرا اس حوالے سے پہلے ہی یہ وضاحت پیش کر چکا ہے کہ یہ نظام کریش نہیں ہوا تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اب آر ٹی ایس ضمنی انتخابات میں استعمال ہوگا یا نہیں ہوگا اس کے حوالے سے بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔