روح الامین نایابؔ
آج ہم تحریک انصاف کی حکومت کے سامنے ضلع سوات کے حوالے سے چند ضروری حل طلب مسائل رکھنے جا رہے ہیں، اُمید ہے کہ وہ اس طرف اپنی توجہ ضرور مبذول کرے گی۔
* بجلی:۔ یہ کالم لکھتے وقت بھی بجلی عجیب طریقے سے ظلم ڈھا رہی ہے۔ اس وقت اکبرِ اعظم کے مست بلکہ بدمست ہاتھی لوگوں کی اُمیدوں اور خواہشات کو روندتے ہوئے لا تعداد فریجوں، فریزروں سے کچھ نہ نکالتے ہوئے، عوام کو ذہنی، قلبی مریض بناتے ہوئے، کارخانوں، دفتروں، دوکانوں یہاں تک کہ گھروں کے معمولات زندگی تباہ و برباد کرتے ہوئے ایک مستقل دردِ سر اور خطرناک جراثیمی بیماری کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ معلوم نہیں اس بدمست ہاتھی کو کیسے قابو کیا جائے گا اور کون سا پہلوان اسے سونڈ سے پکڑ کر رام کرکے روشنیوں کا سلسلہ بحال کرے گا؟ لوڈ شیڈنگ اور پھر اُس کا ایسا ذلیل اور ناروا طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ یو پی ایس اور جنریٹر کی تمام ٹیکنالوجی اور میکانیکی طریقے فیل ہوگئے ہیں۔ لوگ ایک طرح سے عاجز آگئے ہیں۔ سوات میں ذہنی تناؤ، بلڈ پریشر اور پیٹ کی بیماریوں کے مریض بڑھتے جارہے ہیں اور ان تمام خرابیوں اور بربادیوں کے ذمہ دار واپڈا حکام ہیں۔ ان میں انسانیت، شرافت اور شرم و حیا نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ اب سننے میں آیا ہے کہ تھانہ گرِڈ سٹیشن تیار ہے، اگر اس کا افتتاح ہوجائے، تو لوڈ شیڈنگ اور لو وولٹیج کا ستر فیصد مسئلہ حل ہوجائے گا۔ موجودہ حکمرانوں سے درخواست ہے کہ جلد از جلد افتتاح کرکے ثوابِ دارین حاصل کریں اور عام آدمی کی تکالیف میں کچھ کمی لائیں۔
* چوروں کا واویلا:۔ جب سے نئی حکومت نے باگ ڈور سنبھالی ہے، سواتیوں کے گھروں اور مکانوں پر پتھروں کی بارش شروع ہوئی ہے۔ لوگوں کے دروازے کھٹکھٹائے جا رہے ہیں۔ چوروں کا شور ہے۔ ایک دہشت اور خوف کی فضا چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ سیکورٹی اداروں اور پولیس نے عوام کو مجبور کردیا ہے کہ وہ دن میں محنت مزدوری کے بعد رات کو مکانوں کی چھتوں پر چوکیداری کریں اور ’’چوکیدار‘‘ گھومیں پھریں۔ عوام کے خوف و ہراس سے مزے اُٹھائیں۔ اتنے چوکیداروں، پولیس، سیکورٹی اداروں اور جاسوسی ایجنسیوں کے باوجود کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ پھر تو یہ اللہ کی طرف سے سواتی عوام کو سزا دی جارہی ہے کہ انہوں نے الیکشن میں غلط انتخاب کیوں کیا؟ کیا موجودہ حکمرانوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے؟ یہ مبینہ خشت باری روک سکتے ہیں یا خوف و دہشت کا سدباب کرکے عوام کو اطمینان کی زندگی بسر کرنے کی نعمت سے سرفراز کرسکتے ہیں؟ یا پھر سیکورٹی اداروں کو ان کی چوکیداری کرنے کے فرائض ادا کرانے کی یاد دہانی کراسکتے ہیں؟
* ٹیکس نافذ کرنے کا ظالمانہ کردار:۔ موجودہ حکمرانوں کے آتے ہی بجلی اور ٹیلی فون کے بلوں میں ظالمانہ ٹیکس کا نفاذ کیا گیا ہے جب کہ بار بار کہا جا رہا ہے کہ سوات ’’ٹیکس فری زون‘‘ ہے اور اسے فی الحال پانچ سال کے لیے ہر قسم کے ٹیکس دینے سے استثنا حاصل ہے۔ حالیہ بجلی اور ٹیلی فون کے بلوں میں ٹیکس کی رقم شامل کرکے وعدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے جب کہ ایل پی جی کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ کیا گیا ہے۔ اگر چہ حکومتی ترجمان فواد چوہدری صاحب ان تمام اقدامات اور حقائق سے لاعلمی کا اظہار کررہے ہیں۔ دراصل وہ آج کل بولنے، حکم دینے اور واپس لینے سے فارغ نہیں ہیں۔ اس دوران میں وہ اکثر کنفیوژن کا شکار ہوجاتے ہیں کہ کیاکہنا تھا اور کیا واپس لینا تھا؟
* مینگورہ اور لنڈاکی کے درمیان سڑک کی تعمیر ایک الگ بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ عرصۂ دراز سے یہ مسئلہ حل طلب ہے۔ پتا نہیں این ایچ اے والے بنانے، بگاڑنے کے بعد سونے اور پھر اٹھنے کے بعد کہاں منھ اٹھائے چلے جاتے ہیں؟ اس سڑک پہ آنے جانے والوں اور اس کے دونوں جانب رہنے والوں پر رحم کیجیے اور انہیں مزید عذاب سے نجات دلائیں۔ عجیب بات ہے کہ پانچ سالہ وزیراعظموں اور نگراں وزیراعظم کے وعدوں اور اقراروں نے بھی کوئی کام نہیں کیا، ہر آنے والے نے وعدہ کیا اور چلتا بنا۔
* مینگورہ اور سیدوشریف کے درمیان چند اہم مقامات پر فلائی اوور بریج بناکر رش کا مسئلہ کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ کچہری (ناصر الملک چوک) پر سنٹرل ہسپتال، جہانزیب کالج اور سیدوشریف پر چار عدد برج بناکر عوام کو آرپار جانے اور رش سے بچنے کی سہولت دی جاسکتی ہے۔ اس پر زیادہ وقت اور زیادہ پیسہ خرچ نہیں ہوتا، لیکن زیادہ لوگوں کو سہولت دی جاسکتی ہے۔
یہ چند گزارشات آپ کے حضور پیش کرنا تھیں، خداوندِ کریم آپ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
چند حل طلب ضروری مسائل
