اختر حسین ابدالی
پاکستان میں مزدوروں کی پتلی حالت اکثر دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری اور مناسب قانون سازی نہیں کی جاتی اور اگر کی بھی جاتی ہے، تو وہ صرف کاغذی کارروائی تک محدودہوتی ہے، جس کی وجہ سے بندۂ مزدور کی تلخ زندگی سنورنے کی بجائے آئے روز مزید تلخ ہوتی جا رہی ہے۔
قارئین، دیگر مزدوروں کی طرح کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالات بھی دیدنی ہے۔ وہ نہ تو مالی لحاظ سے آسودہ ہیں اور نہ ام کی زندگی خطرات سے خالی ہی ہے۔ سالانہ اوسط لحاظ سے صرف صوبہ بلوچستان میں 80 کی لگ بھگ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدور زہریلی گیس بھرنے سمیت دیگر حادثات کا شکار ہو کر موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔ ’’پاکستان سنٹرل مائینز لیبر فیڈریشن‘‘ کے سیکرٹری جنرل کا اس حوالہ سے کہنا ہے کہ سال 2018ء میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے 93 مزدور کام کے دوران میں پیش آنے والے حادثات کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کانوں کی کھدائی ٹھیکیداری کی بنیادوں پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے ٹھیکیداروں کی زیادہ توجہ منافع حاصل کرنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ اس لیے مزدوروں کے حفاظتی انتظامات کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور یوں دو وقت کی روٹی پیدا کرنے کی غرض سے سر ہتھیلی پہ رکھنے والے محنت کش، ٹھیکیدار حضرات کی لالچی پالیسیوں کی وجہ سے موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں ۔
سال 2018ء کی طرح 2019ء میں بھی کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے سر پر موت کے بادل منڈ لا رہے ہیں۔ حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے سالِ نو کے دوسرے ہی روز ایک حادثہ میں 4 محنت کش ضلع دکی کی ایک کان میں گیس بھر جانے کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے۔ چیف انسپکٹر مائینز بلوچستان کے مطابق ضلع دکی کی کان میں رونما ہونے والا یہ چوتھا واقعہ تھا، جس میں مجموعی طور پر 10 مزدور جاں بحق ہوئے۔ ان کانوں میں حادثات سے نمٹنے کے لیے ضروری حفاظتی انتظامات کا نہ ہونا ہلاکتوں کا باعث بنتا ہے۔ اگر چند ایک ضروری حفاظتی انتظامات کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں، تو حادثات کی شرح کو صفر تک لایا جاسکتا ہے۔ کانوں میں زہریلی گیس چیک کرنے اور اس سے بچنے کے لیے اقدامات کے ساتھ ساتھ کانوں میں آکسیجن چیک کرنے کا انتظام بھی ہونا چاہیے، تاکہ زیرِزمین آکسیجن کے زائل ہونے سے بچا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک سے زائد متبادل راستوں کا انتظام کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ کان میں حادثے کی صورت میں مزدوروں کو متبادل ایمرجنسی راستوں کے ذریعے سے نکالا جا سکے۔ معائنہ کے لیے سرکاری انسپکٹروں کی وافر مقدار میں تعیناتی بھی ضروری ہے، تاکہ وہ کانوں کے اندر سیفٹی کے ضروری اقدامات اٹھانے پر زور دیا کریں۔ امید ہے اس طرح صورتحال بہتر ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
