فضل مولا زاہدؔ
کون سی صدیوں پُرانی بات ہے؟ یہی تیس چالیس برس بیت گئے ہوں گے۔ ”لیٹ“ جہادی جرنیل مسمی محمدضیاء الحق فوج کے بے تاج بادشاہ تھے۔ وہ اپنے اور دوسرے ہم نوا مونچھ برداروں کے زور پر اِس ”راج واڑے کی سلطنت“ کی راج دہانی کے بھی راجہ تھے خواہ مخواہ اورخود بہ خود۔ راج واڑہ یعنی ایسی جگہ جہاں جس کا جو جی چاہے، کرتا پھرے۔ اُس کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ یہ ”ڈیفی نیشن“ اپنی خود ساختہ ہے۔ پلیز، اِس کو کسی ڈکشنری کے پیمانے پر نہ جانچا جائے، تو خدا بھلا کرے۔ کوڑے مار گروپ، ہتھوڑا گینگ اور کلاشن کوف کلچر کی آمد آمد تھی اور جہاد وصلوٰۃ کمیٹیوں کا شور شرابا تھا۔ ایک کتاب کا بڑا ڈنکا بجتا تھا۔ نام تھا ”موت کا منظر، مرنے کے بعد کیا ہوگا۔“ ابھی طفلِ مکتب تھے ہم، تاہم کسی کتب خانے یا مسجد کے طاق خانے میں یہ پڑی نظر آتی، توپڑھنے کی سوچ کی بجائے اس کے ٹائٹل پر سوچ کربڑی بے چینی اور گھبراہٹ سی محسوس ”فرماتے۔“ اپنے ”اَٹوٹ اَنگ“ میں ہوک سی اُٹھتی۔ احمقانہ خیالات آتے۔ سوچ اور فکر کی پگڈنڈیوں میں موت اور قبر کے مناظر چلتے۔ مثلاً جب مصنف کو لحد میں اُتارا جاتا ہوگا، تواُس کے احساسات کیا ہوتے ہوں گے؟ وہ مناظرفرض کرکے اپنے ذہن کے پردہ پرفلم کی ریل کی طرح چلاتے۔ دنیا کی روشنی و چاشنی مصنف کی میت مبارک تک پہنچنے سے روکنے کے لیے اُس کے لحد مبارک پرآخری عمل یعنی مٹی مبارک کی لیپا پوتی ہوتی ہوگی، تو میت دُنیا والوں کی بے رُخی اور اپنے پرایوں کی توتا چشمی پر کتنے غم واندوہ اور قہر و غضب کا شکار ہو گئی ہوگی۔ اُسی خیالی منظر کی خیالی ویڈیو اپنے ذہن میں ”وائرل“ ہو جاتی۔ پھر جب……! لیکن ٹھہریئے جی، کتاب سے ہماری غرض بس یہی تک محدود تھی۔ کسی کو مزید غرض ہو، تو یہ مارکیٹ کے علاوہ ہر مسجد و مکتب میں فری میں بھی دستیاب ہے۔ یہ منظر کشی کا فن اسی کتاب کے ٹائٹل سے نفسیاتی طور پر اپنی داغِ مفارقت تک ساتھ دینے والے دماغ نے مفت میں کشید کیا اُسی عمرِ طفیلی میں۔ کتاب ہٰذاکا کوئی ورق ہم نے اُلٹا یا ہے، ایسے کسی مواد سے متعلق کچھ جاننے کی کوئی تمنا ہے، خواہش ہے نہ ضرورت کہ موت کا منظر مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ بس جی، جو بھی ہوگا وہی منظورِ خدا ہوگا۔ یہ یوں یاد آیا کہ افطاری کا وقت نزدیک ہوا چاہتا ہے اورہمیں اُسی پیٹرن پراپنی افطاری کے روٹین کی منظر کشی کرنا مطلوب ہے۔ جس طرح بچپنے میں ہم موت کے مناظر سوچتے تھے۔
رمضان کے پہلے عشرے کا پہلاہفتہ اور پہلا جمعہ ہے۔ مئی کا مہینا گیا ہی گیا سمجھو، لیکن روٹین کی شدید گرمی کے اس موسم پر اب بھی بہار قابض ہے۔ اِن دنوں میں تو کسان گندم کی فصل کی کٹائی کر رہے ہوتے ہیں۔ عصر کا وقت قضا ہونے کو ہے، جانے دیجیے، ہو جائے۔ ہم نے کون سی نماز پڑھنی ہے؟ ٹیکنیکل گراؤنڈ ز پرڈاکٹر نے روزہ نہ رکھنے کی تنبیہ پہلے سے دی ہے۔ نماز کی ادائیگی سے معافی کی گنجائش ہم نے خود پیدا کی ہے، بہانے بیسیار۔ ہماری حدِایمان داری بارے کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اور ٹوٹل ”ٹال فری“ اور کافر ڈی کلیئر کرنے سے پہلے مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ ایک بات ہمارے بارے ضرور جانیے۔ ہم نماز نہیں پڑھتے نہ سہی، روزہ نہیں رکھتے نہ سہی، تراویح نہیں پڑھتے نہ سہی، لیکن اتنے بھی بڑے کافر نہیں کہ افطاری کا مقدس فریضہ بھی ادا نہ کریں۔ آخر نیلی چھتری والے کے سامنے حاضر تو ہونا ہے ”کہ یو وے او کہ زر وے۔“ سو اس وقت اپنے کاشانہ کے برآمدے میں بچے ایک ”پورٹیبل“ قالین پر گاؤ تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے اورشرعی نقطہئ نظر سے ٹوٹل روگردانی کرتے ہوئے بائیں ٹانگ کو دائیں پر فوقیت دے کر بڑے اشرافیہ ”ٹون“ میں تشر یف فرما ہیں، ہم۔ بھئی، پڑھتے بھی جائیں اورمناظر کو ذہن کے ہارڈ ڈیسک میں بھی فیڈ کرتے جائیں۔ ہمارا ذاتی منظر یہ ہے کہ سفید ڈریس زیبِ تن کیے ہوئے ہوں۔ وادیِ دیر کی اُجلی سفید ٹوپی سر پر رکھے ہوئے ہوں اور ہم رنگ لمبی تسبیح ہاتھ میں لیے ہوئے ہوں۔ وقتاً فوقتاً ایک ایک دانے پر ایک دو تین کا گردان کرتے ہوئے ہوں۔ افطاری کے وقت کا حساب بے باق کرتے ہوئے ہوں، جی۔ کسی کو لگے کہ ہم اوپر والے کے ذکر و فکر کے مرحلے سے گزر رہے ہیں، تو بصد شوق لگے، یہ ہم کب کے کسی کے خیالوں پر روک ٹوک ڈالنے والے خفیہ ہاتھ کا کام کرنے لگ پڑے ہیں؟
اب قالین کا منظر ملاحظہ ہو، جناب! قالین کے بیچ میں ایک خوشنما پھول دارڈسپوزبل دسترخواں بچھا ہے۔ عجوہ کھجوروں کی ایک طشتری شیشے کی صراحی میں وَرجن کوالٹی زیتون کا تیل اور میانے قد کے مرتبان میں معدنیات سے بھرپور ترکی کے التون کا ترشو اچار، جس کے دائیں طرف ڈسپلے پر پڑے ہیں۔ ایک خوب صورت جار میں چھوٹی مکھی بیری کا ”صافیت و شفافیت“ سے نکھرا شہد پڑا ہے۔ ذکر شدہ یہ تمام اشیا مع قالین ودسترخوان، صاف بات ہے اپنے نہیں، مہربانوں کے بھیجے ہوئے تحفے ہیں۔ تحفے تو ہم کیش اور کائنڈ دونوں صورتوں میں قبول کرتے رہتے ہیں، بلاترَدّود۔ ہمارا دسترخوان سجتا ہے، تو پہلے اِن مبارک پراڈکٹس سے آغاز ہوا چاہتا ہے۔ پڑھنے والے آگے آنے والے اعداد و شمار غور سے پڑھیں۔ ”مبلغ دو خواتینِ خانہ بیک وقت، باورچی خانے میں ایک وقت سے ہمہ تن مصروف۔ تین چولھے جلاتے ہوئے۔ اپنے سمیت مبلغ چار روزہ داروں کے لیے افطاری کی تیاری کر رہے ہیں۔“ ظہر سے مغرب تک جاری رہنے والی اِس بھرپور سرگرمی کے پہلے سیریزمیں جو پراڈکٹس باورچی خانے سے ہوتے ہوئے اِس وقت آؤٹ ہو کر دسترخوان میں اِن ہو رہے ہیں،وہ دو عدد ”فتنوسوں“ کی گرفت میں ہو رہے ہیں۔ پہلے جگ میں نفیس کوالٹی کا فرحت بخش شربت، جس کو دیکھ کرانسان کارُوح اُسے پینے کے لیے مینڈکوں کی طرح ٹرٹرا اُٹھے۔ سوری، اگر کسی کو یہ مینڈک والی بات بھاری لگ جائے، ایک آپ روزے سے بھی ہیں، پیاس سے لاغر و دل برداشتہ بھی، اور دوسرے ہم ”بوزہ دار“ لوگ ہیں کہ اوپر سے ڈنک بھی مار تے ہیں لفظوں کا۔ اللہ تعالیٰ خیرو فضل فرمائے گا، صبر کریں۔ اگلے والے یعنی دوسرے جگ کاجائزہ لیتے ہیں۔ اِس میں دن بھر کے بھیگے ہوئے دس عددبادام و تین عجوہ کھجوروں سے کشید کیا ہوا جنگلی شہد، زعفران اور خالص دودھ میں مکس کیا ہوا شوگر فری شربت، جو اپنے دوست حکیم گل وارث پلانٹ بریڈنگ اینڈ جینی ٹکس میں سپیشلائزیشن رکھنے والے مقیم حال شاہ منصور صوابی کی ذاتی اور عمر بھر کی کاؤشوں کا نچوڑ ہے، کے خفیہ نسخہ کے عین مطابق اپنے واسطے آیا ہے۔ خدا کی دین ہے جس کو چاہے اُس کو دیوے۔
یاد رہے، ہم نے خود کو خواہ مخوا شوگر پیشنٹ ہونے کا شوشا اس لیے چھوڑا ہوا ہے کہ اِس عمل میں خرابیاں کم اور خوبیاں بیسیار اَست۔ آپ لوگوں سے کیا پردہ! تیسرے جگ میں منظور کے سُسرال سے دیسی گائے کے دہی کی لسی، خالص مکھن ملائی سے اَٹی ہوئی، ابھی بلا نمک و بلاچینی ہے، عنایت کی گئی ہے اور حاضر ہے۔ میٹھا پینا ہے یا کڑوا کٹھا، اس کے لیے درکار موادجس پر انحصار کرنا ہے، موجود ہے۔ مثلاً لوندخوڑ کی کھیتیوں کے بہترین گُڑ کا گودا ڈال کر مکس کر لیں اِس لسی میں، تو ”مزہ یک بالا۔“ کالی ملتانی نمک اورکالی مرچ کا معمولی بَگار دے کر پیتے جائیں تو مزہ دو بالا۔ ناز و نیاز سے گلاس بھر لسی میں شہد مبارک کا ایک آدھ چمچا ڈال کرپُروقار انداز میں چمچا ہلاتے جائیں، تاآں کہ افطار کا ڈنکا بج جائے، یعنی سائرن ہوجائے اور پھروقفے وقفے سے منھ میں ٹھہرا ٹھہرا کے گھونٹ پہ گھونٹ پیتے جائیں تو، تو مزہ سہ بالا۔ آخری جگ میں سادہ پانی ہے، جو بے رنگ و بے بو و بے نیاز بھی ہے اور لمحہئ موجود میں بہت بے قدر و بے قیمت بھی، یہ پینے کے لیے ضروری نہیں جگ ہنسائی کے لیے ضرورہے۔ ابھی پہلے کھیپ یعنی سیریز کا ذکرتمام نہیں ہوا، کہ دوسرے لوڈ یعنی سیریز کااجرا ہوتا ہے۔ اِس کو سویٹ ڈش کارنر نام دیں، تو نامناسب نہیں ہوگا۔ اس میں روٹین کے فروٹ چاٹ اور کھیر وغیرہ کے علاوہ قابلِ ذکر جو پراڈکٹ ہے، وہ ہے انجیر کا حلوہ، جو کئی نایاب ادویائی جڑی بوٹیوں کا مرکب تو ہے، لیکن گلگت کی ”سی بگ تھارن“ کی جو خوشبو مہک مہک کر اِس سے نکلتی ہے، وہ کسی بھوکے کو منہمک کرنے کے لیے کافی ہے۔یہ رہ رہ کرشمالی علاقے کے ایک دوست کی محبت کی یاد دلاتی ہے۔ ہم سب سے پہلے اپنے فیورٹ حلوے کا ایک چمچ اپنی رکابی میں محفوظ کرلیتے ہیں۔ تھوڑا فروٹ چاٹ ایک اور چینی رکابی میں ڈال کر اُس پر زیتون شہد اور ملائی کا پاہا رکھتے ہیں۔ تیسری کھیپ، یعنی تیسری سیریز جو مزید شان سے آ پہنچتا ہے اور جس پر سفید جھالی دار کپڑا بچھا ہے، یہ چٹخارے دار اجناس کا پورشن ہے، جو تین بڑے کٹوروں میں ہے اور چنا چاٹ مع تمام ویلیو ایڈیشن کے، سموسہ تا پکوڑا اور گھر کے بنے دہی کے ایک بھرپور برتن پر مشتمل ہے۔ ہم ایک پلیٹ میں ایک چوتھائی دانہ سموسہ کا، آدھا دانہ شامی کا اور ایک دانہ چکن پکوڑا ریزرو کر لیتے ہیں۔ اس کی معیت میں احتیاطاً تھوڑی سی تازہ دانیا ل اور پودینہ چٹنی بھی شاملِ باجہ کر لیتے ہیں۔ اب کی بار اگلے قدم پر ڈونگوں کا جلوس نکلتاہے، لیکن سِوائے صرف ایک آئیٹم کے، اس کے مزید ذکر سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ مبادا جان پہچان والے کسی نہ کسی بہانے اسی ”تکل“ میں بن بلائے مہمان بننا شروع ہوں، یا ”فقیر شقیر“ کہیں گھات میں رہنے کے عادی ہو جائیں، یا گھات ہی سے یاد آیا کہ کہیں خفیہ والے ہماری گھات میں رہنا شروع نہ کریں اسی ”تکل“ میں، کسی کا کیا بھروسا!
ہاں تو ڈونگوں کے جلوس میں جو سب سے بڑا اور پرنسپل ڈونگا ہے، وہ ہے جنگلی مشرومز کے سالن کا۔ بھائی صدیق احمد سیزن میں آدھ کلو تک تازہ مشرومز خرید کر ہمیں وقف کرتے ہیں، لیکن ہفتے میں ایک دفعہ۔ لو جی، چاروں روزہ دار آمنے سامنے اور دائیں بائیں بیٹھ جاتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ افطاری کا وقت آ پہنچا ہے۔ باقی تین دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتے ہیں۔ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور مسلسل ہونٹ ہلاتے ہیں۔ ہم اُن کی تقلید میں ”ڈو ایز رومن ڈو“ والے فارمولے کے تحت ہاتھ اُٹھاتے ہیں، لیکن اوپر کی طرف دیکھنے کی بجائے شہ رگ اور دسترخوان کی طرف دیکھتے ہیں۔ اتنے میں ڈنکا بج جاتا ہے یعنی سائرن ہوتا ہے۔ ہم ایک کھجوراُٹھا کر کھاتے ہیں۔ شربت پی کر چٹخارہ خاندان کی اشیا اتناچکھ لیتے ہیں، جتنا خواتین سالن بناتے وقت نمک۔ پھر دوچار لقمے کھانا کھاتے ہیں۔ ”بسم اللہ“ جو ابتدا میں بھول گئے ہوتے ہیں،آخر میں پڑھ لیتے ہیں۔ جب بھوکے تھے تب کھانے کو کچھ نہ تھا، اب سب کچھ ہے لیکن بھوک نہیں۔ یہ سوچ کر حسرت کی لمبی ڈکار لیتے ہیں اور پھر زائد کیلوریز کی مقدار کو ضائع کرنے واک پر نکلتے ہیں۔ گلی کے انٹرنس میں دو آدمی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے، دیکھتے ہیں۔ اُن کے سامنے ایک کاغذ کے ماتھے پر تین چار روٹیاں، اوپر جس کے اچار کے چند ٹکڑے اورٹھنڈے پکوڑے پڑے ہیں، بڑے مزے سے کھانے میں مصروف دیکھتے ہیں۔ کھڑے کھڑے، دیکھتے دیکھتے بھوک کی اتنی شدت محسوس ہوتی ہے، دِل چاہا، اُن سے کھانے کے ایک نوالے کا سوال کر لیں۔ایک نوالے کا سوال ہے بابا۔ جو دے اُس کا بھی بھلا، جو نہ دے اُس کا بھی بھلا۔جاتے جاتے اتباف ابرکؔ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
سرِ محفل کہا ترا قصہ
خود کو یوں معتبر کیا ہم نے
وہ نہ سمجھے تو مسکرائے ہیں
شعر سمجھے، اثر کیا ہم نے
خود کہانی میں رہ نہ پائے ہم
قصہ جب مختصر کیا ہم نے
کوئی بتلائے گا ہمیں ابرکؔ
بھلا کیا عمر بھر کیا ہم نے