اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ملزم پرویز مشرف کی پاکستان میں جائیداد ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو گرفتار کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق جمعرات کو جسٹس یحیٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق فوجی صدر پرویز شرف کیخلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کی تو وزارت داخلہ کی جانب سے سابق آرمی چیف کی ملک میں سات جائیدادوں کی تفصیلات عدالت میں پیش کی گئیں۔ وزارت داخلہ کے اہلکار کا کہنا تھا کہ عدالت میں پیش کی جانے والی سات جائیدادوں میں سے چار ملزم پرویز مشرف کی ملکیت ہیں۔ عدالت نے وزار ت داخلہ کے اہلکار سے استفسار کیا کہ انہوں نے ملزم کی گرفتاری کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں اور اطلاعات کے مطابق ملزم پرویزمشرف کے ریڈ وارنٹ بھی جاری نہیں کئے گئے۔ اس مقدمے کے سرکاری وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عدالت حکم دے تو ابھی ملزم کے ورانٹ گرفتاری جاری کرنے کے بارے میں کارروائی شروع کرتے ہیں جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر کام کی اجازت عدالت ہی دے۔ اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تک خصوصی عدالت نے ملزم پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کا حکم نہیں دیا جبکہ ملزم نے عدالت میں حلف نامہ جمع کروایا تھا کہ عدالت جب بھی بلائے گی تو وہ پیش ہو جائیں گے۔ ملزم پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے موکل کی جائیداد کی ضبطگی کے احکامات واپس لئے جائیں جس سے عدالت نے اتفاق نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے موکل عدالت کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ پہلے انہیں سکیورٹی فراہم کی جائے۔ اختر شاہ کا کہنا تھا کہ سابق فوجی صدر عدالت میں جب پیش ہوں تو انہیں دوبارہ ملک سے باہر جانے سے نہ روکا جائے جس پر بینچ کے سربراہ نے سکیورٹی فراہم کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلے پرویز مشرف اپنے آپ کو قانون کے سامنے سرنڈر کریں اور اس کے بعد دیکھیں گے کہ کیا ملزم کی استدعا پر غور کیا جائے یا نہیں،تب تک عدالت انھیں کوئی ضمانت نہیں دے سکتی۔ ایک خبررساں ادارے کے مطابق عدالت نے ملزم کودبئی سے گرفتارکرکے لانے کے سلسلے میںمتحدہ عرب امارات کی حکومت کیساتھ باہمی تعاون کے معاہدے کی تفصیل بھی طلب کرلی ہے ،بعدازاں عدالت نے سماعت 21 مارچ تک ملتوی کر دی۔ واضح رہے کہ اسلام آ باد کی مقامی عدالت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو حبس بیجا میں رکھنے کے مقدمے میں بھی اشتہاری قرار دے چکی ہے۔