مولانا ہارون رشید
کچھ دن پہلے ہی مغربی دنیا کا ایک نام نہاد دن ”مدر ڈے“ کے نام سے گذرا ہے، جو اب مشرقی ممالک میں بھی بڑی تیزی سے اپنایا جا رہا ہے کہ ایک دن آپ اپنی ماں کے نام کر دیں۔ اس دن آپ اس سے کہیں کہ مجھے آپ سے بہت محبت ہے۔ کوئی ایک تحفہ بھی پیشِ خدمت کر دیں۔ اس طرح آپ پورے سال کی محبت کا اظہار بس ایک بار کرکے فارغ ہوجائیں۔ اس کے بعد آپ انہیں سارا سال نہ پوچھیں۔ انہیں بھول جائیں، اسی طریقے سے اب ”فادرز ڈے“ بھی منایا جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ والدین کے ساتھ محبت کا اظہار سال میں صرف ایک مرتبہ ہونا چاہیے اور بس!
اسلام نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی بہت تاکید کی ہے۔ یہ کسی زمانے یا کسی ایک دن یا ایک وقت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ اولاد کے لیے زمین پر سب سے بڑا سرمایہ ماں باپ ہیں۔ اگر والدین زندہ ہوتے ہیں، تو اولاد کے لیے دعاؤں کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ کیوں کہ ان کے والدین ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کے لیے ہمارے والدین ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہمیں صحیح اور غلط بتانے کے لیے ہماری مدد اور حوصلہ افزائی کے لیے زندگی کی دوڑ میں ہمارے والدین ہمارے مسائل حل کرتے جاتے ہیں۔
وہ جائے نماز پر ہاتھ اُٹھائے ہمارے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ ہمیں کھلاتے، پلاتے، پڑھاتے اور ہمارے ساتھ کھیلتے ہوئے ہماری بیماری اور تکالیف پر پریشان ہوتے ہوئے اور کبھی ہمارے انتظار میں دروازے پر نظریں جمائے ہوئے ہوتے ہیں۔
قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کے بارے میں بڑی تاکید آئی ہے۔ چناں چہ سورہئ بنی اسرائیل میں ارشادِ خداوندی ہے: (ترجمہ) اور حکم کرچکا تیرا رب کہ نہ پوجو اس کے سوا، اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ اگر پہنچ جائے تیرے سامنے بڑھاپے کو ایک اُن میں سے یا دونوں، تو نہ کہہ ان کو اُف اور نہ جھڑک ان کو اور کہہ اُن سے بات ادب کی۔“
امام ترطبی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے والدین کے ادب و احترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب فرمایا ہے۔ جیسا کہ سورہئ لقمان میں اپنے شکر ادا کرنے کے بعد والدین کے شکر ادا کرنے کا ذکر ہے۔ اللہ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم اور اللہ تعالیٰ کے شکر کی طرح والدین کا شکر گذار ہونا واجب ہے۔
والدین کی خدمت واطاعت کے بارے میں احادیثِ مبارکہ ملاحظہ ہوں۔ حضرت ابوالدرداؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے۔ اب تمہیں اختیار ہے کہ اس کی حفاظت کرو یا ضائع کرو۔ (مسند احمد، ترمذی)
حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ اللہ کی رضا، باپ کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔ (ترمذی)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ جو خدمت گذار بیٹا اپنے والدین پررحمت و شفقت سے نظر ڈالتا ہے، تو ہر نظر کے بدلے میں ایک حج مقبول کا ثواب پاتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اگر وہ دن میں سو مرتبہ اس طرح نظر کرے، آپؐ نے فرمایا کہ ہاں سو مرتبہ (بیہقی)
ایک روایت ہے کہ جو شخص اللہ کے لیے اپنے ماں باپ کا فرماں بردار رہا، اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے رہیں گے، اور جو ان کا نا فرمان رہا، اس کے لیے جہنم کے دروازے کھلے رہیں گے۔ حضرت ابی بکر، حضورؐ سے نقل کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ اور سب گناہوں کی سزا تو اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں قیامت تک مؤخر کردیتے ہیں۔ بجز والدین کی حق تلفی اور نافرمانی کے، اس کی سزا آخرت سے پہلے دنیا میں بھی دی جاتی ہے۔ (تفسیر مظہری)
اس پر علما کا اتفاق ہے کہ والدین کی اطاعت صرف جائز کاموں میں واجب ہے۔ ناجائز کا یا گناہ کے کام میں نہیں۔ باپ کے بارے میں خود قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کریں۔ اگر آپ کو کافر ہونے کا حکم دیں، تو پھر اس کا حکم ماننا جائز نہیں۔
چند اہم مسائل ملاحظہ ہوں، جو نقی محمد شفیعؒ کی تفسیر معارف القرآن سے اخذ شدہ ہیں۔
مسئلہ:۔ جب تک جہاد فرضِ عین نہ ہوجائے، فرض کفایہ کے درجے میں رہے، اس وقت تک کسی لڑکے کے لیے ماں باپ کی اجازت کے بغیر جہاد میں جانا جائز نہیں۔
ایک شخص حضورؐ کی خدمت میں شریک جہاد ہونے کی اجازت لینے کے لیے حاضر ہوا۔ آپؐ نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا، تم ماں باپ کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو۔ یعنی ان کی خدمت میں تمہیں جہاد کا ثواب مل جائے گا۔
مسئلہ:۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ جب کوئی چیز فرض عین یا واجب العین نہ ہو، کفایہ کے درجہ میں ہو، تو اولاد کے لیے وہ کام بغیر ماں باپ کی اجازت کے جائز نہیں۔ اس میں مکمل علمِ دین حاصل کرنا اور تبلیغِ دین کے لیے سفر کرنا بھی شامل ہے کہ بقدرِ فرض علمِ دین جس کو حاصل ہو، وہ عالم بننے کے لیے سفر کرے یا لوگوں کو تبلیغ و دعوت کے لیے سفر کرے، تو بغیر اجازت والدین کے جائز نہیں۔
مسئلہ:۔ والدین کے ساتھ جو حسنِ سلوک کا حکم قرآن و حدیث میں آیا ہے۔ اس میں یہ بھی داخل ہے کہ جن لوگوں سے والدین کی قرابت یا دوستی تھی، ان کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا معاملہ کرے۔ خصوصاً ان کے وفات کے بعد۔ ایک روایت میں ہے، باپ کے ساتھ برا سلوک یہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (بخاری)
والدین کے لیے مرنے کے بعد دعا اور استغفار کرنا اور جو عہد انہوں نے کسی کے ساتھ کیا تھا، اس کا پورا کرنا اور ان کے دوستوں کا اکرام و احترام کرنا اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا برتاؤ کرنا، یہ ایسے حقوق ہیں جو ان کی وفات کے بعد باقی ہوتے ہیں۔
اطاعت والدین
