عطا الرحمان عطاء
مَیں نہیں جانتا کہ یہ مَیں کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ مجھے تھوڑا سا یاد ہے کہ جب مَیں چھٹی جماعت میں تھا، تو ایک بار اپنے چچا گل آغا کے ساتھ شہرکے ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس زمانے میں چچا گل آغا ہسپتال میں ڈسپنسر ہوا کرتے تھے۔ سرجکل وارڈ میں ڈھیر ساری چارپایاں لگی ہوئیں تھیں۔ مریضوں میں سے چند تو خاموش تھے لیکن چند ایک شدت درد سے چیخ رہے تھے۔ چچا نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے ایک ڈاکٹر دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ جو سامنے کھڑے ہیں، یہ ڈاکٹر حال ہی میں برطانیہ سے آئے ہیں۔ اگر چہ ابھی یہ کم عمر ہیں، تا ہم یہ بہت بڑے سرجن ہیں۔ مَیں نے پہلی بار سرجن صاحب کو دیکھا۔ اس نے سبز رنگ کا ہاف شرٹ اور شلوار زیب تن کیا ہوا تھا۔ اس کے گلے میں ایک ماسک لٹک رہا تھا۔ بس اسی دن سے آج تک میری سب سے بڑی خواہش یہ رہی ہے کہ مَیں بھی بڑا سرجن بن جاؤں۔ باوجود یہ کہ مجھے کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا تھا کہ سرجری کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ یہ بڑے دل گردے کا کام ہے۔ کیوں کہ چھری سے کسی کا پیٹ چیرنا کوئی دل لگی تو نہیں۔ تا ہم پتا نہیں یہ ”لونگہ دادی“ کی دعائیں تھیں یا میری خواہش کی شدت کہ آخرِ کار مجھے میڈیکل کالج میں داخلہ مل ہی گیا۔
مجھے وہ دن بھی یا د ہے کہ جب اناٹومی کی کلاس کے دوران میں، مَیں نے پہلی دفعہ ایک مردے کا اس طرح چیر پھاڑ کا عمل دیکھا اور جب پروفیسر صاحبان اس کی ہڈیوں میں مجھے مسلز دکھارہے تھے، تو مَیں بے ہوش ہوگیا تھا۔ اس دن کے بعد میں ڈائی سیکش ہال نہیں گیا تھا۔ غیر حاضری کے خوف سے جب بھی ادھر جاتا تھا، تو سب ہم مکتبوں کے پیچھے دور کھڑا رہتا تھا۔
زمانہ بیت گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری یہ کمزوری بھی ختم ہوگئی۔ اس کے باوجود کہ مَیں نے سرجن بننے کا ارادہ ترک کیا تھا اور اب میرا خیال یہ تھا کہ میں جلد کا ڈاکٹر (Dermatosis) بنوں گا۔ تاکہ میرا کام آسان ہو۔ اس طرح میں ایمرجنسی ڈیوٹی سے بھی آزاد رہوں گا، لیکن کبھی کبھی میرے بچپن کی خواہش پھر سے سانس لینے لگتی اور میرے سرجن بننے کا ارادہ مزید پختہ ہوجاتا۔ مَیں نے کتابوں میں پڑھا ہوا تھا کہ ایک سرجن کے لیے سامنے ٹیبل پر پڑا ہوا شخص محض ایک بیمار وجود ہے اور اس کا کام اس بیمار وجود کو تن درست بناناہے۔ اس پیشے میں محبت اور خون کے رشتے بے معنی ہوتے ہیں۔ جذبہئ ترحم کے ساتھ یہ کام ہو ہی نہیں سکتا۔ مَیں نے بہت ساری سرجریاں کیں اور میرا دل مضبوط ہوگیا۔ کیوں کہ میں جانتا تھا کہ انسانوں کو درد اور تکلیف سے چھٹکارا دلانے کے لیے یہ سب ضروری ہے۔ لیکن آج میں پھر سے کیسے بچہ بن گیا! میرا کلیجہ پھٹ رہا تھا۔ مَیں نے اپنے ساتھی ڈاکٹر اصغر سے کہا: ”بس آپ اس بچی کا آپریشن کریں۔ میری طبیعت خراب ہے۔“ نہ جانے کیوں ……! جب مَیں اس بچی کو دیکھتا، تو مجھے اپنی بیٹی یاد آجاتی۔ عجیب اتفاق تھا کہ دونوں ہم نام تھے۔ یہ بھی سدرہ اور میری بیٹی بھی سدرہ۔ دونوں معمولی فرق کے ساتھ ہم عمربھی تھیں۔ یہ بچی کل شمالی وزیرستان سے لائی گئی تھی جس کی دائیں ٹانگ زمین میں دبائے گئے مائن کے پھٹنے سے اُڑ چکی تھی۔ مَیں نے مقدور بھر کوشش کی کہ اس کا ٹانگ محفوظ رہے لیکن کامیابی نہیں ہوئی اور آج یہ فیصلہ ہوا کہ گنگرین (Gangrene) میں مسلسل اضافے کی وجہ سے مجبوراً گھٹنے سے نیچے اس کا ٹانگ کاٹنا پڑے گا۔ ایمپولیشن (Ampulation) عموماً سب سے آسان سرجری ہوتی ہے لیکن جب بھی اس بچی کے بارے میں سوچتا، تو مَیں یہ محسوس کرتا کہ یہ میری بیٹی سدرہ ہے۔
مَیں نے ایک بار پھر ڈاکٹر اجمل سے معذرت کی لیکن نہ جانے کیوں وہ مجھے اس کرب سے گزارنے پر تلا ہوا تھا۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ ہسپتال سے چند دن کی رخصت لے لوں اور چند دن آرام کرنے کے بعد جب واپس ڈیوٹی پر جاؤں گا، تو اس بچی کا آپریشن ہوا ہوگا اور یہ ایک ٹانگ کے ساتھ ہسپتال سے رخصت بھی ہوچکی ہوگی، لیکن دل یہ بھی نہیں مان رہا تھا۔
مَیں نے ڈاکٹر جلال سے کہا کہ ٹھیک ہے اس بچی کی زندگی بچانا ضروری ہے۔ آپ (Pre-Operative) مرتب کرلیں، مَیں آرہا ہوں، لیکن مجھے کیا خبر تھی کہ یہ کرب مجھے پاگل کردے گا۔ آپریشن سے پہلے جب ہم اس کی ٹانگ کاٹنے کے لیے اُن کے اقارب سے اجازت لینے لگے اور مَیں کاغذات کے ساتھ وارڈ سے باہر آیا، تاکہ اُن کے دستخط لے سکوں۔ مَیں نے پوچھا، سدرہ وزیر بچی کے ساتھ کون ہے؟ ایک نوخیز لڑکا جو بہ مشکل چودہ سال کا تھا، آگے بڑھا اور کہا: ”ڈاکٹر صاحب! مَیں ہوں۔“ مجھے لگا کہ مَیں اب پاگل ہوجاؤں گا۔ ایک بہن کی ٹانگ کاٹنے کے لیے بھائی سے دستخط لے رہا ہوں۔ مَیں نے کہا: ”بیٹا، آپ کو پتا ہے کہ آپ کی بہن شدید زخمی ہے۔ ہم آپریشن کر رہے ہیں۔ یہ آپریشن ہوسکتا ہے۔ اس کی زندگی بچانے کے لیے اس کی ٹانگ کاٹ رہے ہیں۔“ لڑکے کی سانس جیسے کہ رک گئی ہو۔ اس نے اپنا پکول سر سے ہٹایا اور آسمان کو تکنے لگا۔ اس نے اپنے ہونٹوں کو مضبوطی سے دبایا جیسا کہ وہ ایک نعرہ لگانا چاہتا ہو۔ بہت ضبط کے باوجود بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ پھر اس نے گلوگیر لہجے میں کہا: ”ڈاکٹر صاحب اگر آپ میرے والد صاحب کے ساتھ بات کریں، تو بہت بہتر ہوگا۔“ میری تھوڑی ڈھارس بندھ گئی۔ مَیں نے سوچا، چلو اس کا والد تو حوصلے والا شخص ہوگا، لیکن میری حیرت میں اس وقت اضافہ ہوگیا جب اس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا: ”میرا والد صاحب سعودی عرب میں ہے۔ اگر آپ ان سے فون پر بات کریں، تو اچھا ہوگا۔“ مَیں نے کہا، ”ٹھیک ہے۔ اس کا نمبر دو اور اس نے جلدی سے اپنے والد کا نمبر ڈائل کرتے ہوئے موبائل مجھے پکڑا دیا۔ مَیں نے کہا: ”ڈاکٹر عزیز بات کر رہا ہوں۔ آپ کی بیٹی زمین میں بچھائی گئی مائن کے پھٹنے سے زخمی ہوچکی ہے۔ اس کا آپریشن ہے۔ ہم اس کی زندگی بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اگر اس دوران میں اس کا پاؤں کاٹنا پڑے، تو کیا آپ کی اجازت ہوگی؟“ دوسری طرف سے فون پر سسکیوں کی آواز نے میرا کلیجہ چھلنی کردیا۔ سوچ رہا تھا کہ کیا کروں؟ میری بیٹی سدرہ میری آنکھوں کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ وہ ذرا سنبھلے تو کہنے لگے: ”یہ اگر اس مائن کے حادثے کے موقعہ پر ہلاک ہوجاتی، تو بہتر ہوتا۔ مَیں اس معصوم بچی کو اپاہج کیسے دیکھوں گا؟“ مَیں نے کہا، ”میرے بھائی! حوصلہ رکھو۔ زندگی اہم ہے۔ زندگی خوبصورت ہے۔“ مَیں زندگی میں پہلی دفعہ محسوس کر رہا تھا کہ میں بکواس کر رہا ہوں۔ زندگی اہم ہے اور نہ خوبصورت…… اس نے کہا: ”آپ جو کر رہے ہیں، ٹھیک ہی ہوگا۔“ شائد پہلی دفعہ مَیں نے اس کاغذ پر لکھا کہ مریضہ کا والد گھر سے دور ہے۔ اس سے رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ مَیں آج تک یہ جاننے سے قاصر ہوں کہ مَیں نے سدرہ کے والد کی اجازت وہاں کیوں تحریر نہیں کی؟ شاید میں سرجن کی بجائے باپ بن گیا تھا اور مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میں اپنی بیٹی کے لیے دستخط کر رہا ہوں۔ جراحی ہوگئی۔ ہم نے گٹھنے سے نیچے سدرہ کی زخمی ٹانگ کاٹ دی۔ جراحی کے بعد تیسرے روز جب میں معمول کے مطابق راؤنڈ پر تھا، تو سدرہ ویسی ہی بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔ مجھ میں اس کی معصوم آنکھوں سے آنکھیں ملانے کی سکت نہیں تھی۔ میری کوشش تھی کہ جلدی اس بیڈ سے آگے نکلوں۔ چلتے چلتے ذرا سا رک گیا۔ مَیں نے پوچھا سدرہ اب کیسی ہو؟ وہ مسکرا کر کہنے لگی: ”اب تو میں ٹھیک ہوگئی ہوں، لیکن یہ نرس مجھے چھٹی نہیں دے رہی اور صبح و شام مجھ میں سوئیاں چبھوتی رہتی ہے۔“ چھے سال کی بچی اور یہ معصومیت…… اُف! مَیں نے پوچھا: ”بیٹا! درد تو نہیں ہو رہا؟“ کہنے لگی: ”ڈاکٹر صاحب! درد کی وجہ سے تو مَیں رات بھر سو نہ سکی۔ میری دائیں ٹانگ میں شدیددرد ہورہا ہے۔ دن کو ایسا نہیں ہوتا، لیکن رات بھر درد ہوتا ہے۔ مَیں نے پوچھا: ”بیٹا کون سی ٹانگ؟“ کہنے لگی: ”دائیں جو آپ نے کاٹ ڈالی ہے۔ لیکن اس میں اب تک درد ہو رہا ہے۔“ مجھے محسوس ہوا جیسے مَیں شدید درد سے پاگل ہو رہا ہوں۔ مَیں نے کہا اچھا یہ “Phahtom pain” ہے۔ ٹھیک ہوجائے گا۔ اس نے پھر معصومیت سے پوچھا: ”میری ٹانگ تو اب نہیں رہی، تو پھر یہ درد کیوں؟ مجھ سے تو یہ گڑیا بہتر ہے۔ وہ میز سے گڑیا اٹھا کر گود میں لیتے ہوئی کہنے لگی: ”دیکھو اس کی دونوں ٹانگیں ٹھیک ہیں اور مما کہتی ہیں کہ یہ بے جان ہے۔ اس کو درد بھی محسوس نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر چچا! اگر میں بے جان ہوتی، تو مجھے بھی درد سے واسطہ نہ پڑتا نا؟“ مَیں لاجواب تھا۔ مَیں نے اس کی فائل میں درد کی دوائی لکھ دی۔ وہ اپنی گڑیا کی ٹانگ کو دیکھ رہی تھی اور کبھی گھٹنے سے نیچے اپنی کٹی ہوئی ٹانگ کو اور خود کلامی کے انداز میں سرگوشی کر رہی تھی۔
اُس بچی کے درد کو آج تک مَیں بھلا نہیں سکا۔ مَیں آج بھی جب جب پیدل چلتا ہوں، تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے دائیں پاؤں میں درد نہیں ہو رہا بلکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرا دایاں پاؤں ہے ہی نہیں۔ شہر کے بڑے ماہرِ نفسیات کے ساتھ میں آٹھ سال سے زیرِ علاج ہوں۔ اس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب “Panthom Pain” تو مسلم ہے اور موجود ہے لیکن آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ آپ کا پاؤں نہیں۔ اس قسم کا مسئلہ ہماری کتابوں میں نہیں ہے۔ مَیں نے کہا: ”ڈاکٹر صاحب! لکھو، میرا مرض یہ ہے “Panthom Foot” انہوں نے اپنا سر دونوں ہاتھوں کی مدد سے پکڑ لیا اور میں دو سلامت ٹانگوں کے ہوتے ہوئے لنگڑاتا ہوا اس کے کلینک سے نکل گیا۔
نوٹ:۔”Phantom Foot” اصطلاح موجود نہیں۔ افسانے میں اس سے مراد یہ ہے کہ کسی مریض کا یہ احساس کہ اس کا پاؤں موجود نہیں، حالاں کہ وہ موجود ہو۔ “Phantom Pain” ایک ایسی نفسیاتی حالت کہ جب کسی مریض کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ دیا جائے۔ خصوصاً ہاتھ یا پاؤں، لیکن کاٹنے کے بعد بھی وہ اس کا درد محسوس کر رہا ہو۔
(ڈاکٹر ہمدرد یوسف زیئ کے پشتو افسانہ کا ترجمہ، راقم)