Ishaq Mian
قارئین، مریض مختلف پیچیدہ امراض کے ساتھ آئی سی یو میں داخل ہے۔ ڈاکٹروں نے معائنہ کرکے تشخیص کے مطابق علاج تجویذ کر دیا ہے۔ دورانِ علاج مختلف لیبارٹریوں کا نتیجہ اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔ کبھی یوریا کریٹانین زیادہ، تو کبھی شوگر زیادہ۔ کبھی دل کی دھڑکن بے ترتیب، تو کبھی جگر کے فعل میں خرابی۔ کہیں پھیپڑوں میں مسئلہ، تو کہیں بلڈ پریشر کم یا زیادہ، تو کبھی الیکٹرولائٹس اِم بیلنس۔ مکمل علاج نہ ہونے کی صورت میں مریض کی جان کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ بیسیوں قسم کے انفیوژنز مریض کو چل رہے ہیں جنہیں دیکھ کر اہلِ خانہ کی پریشانی میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ خانہ، ڈاکٹرز کے خلاف ہڑتال کر رہے ہیں۔ ایسے اہلِ خانہ کو بندہ کیا کہے؟ کیا مریض کا علاج ادھورا چھوڑ کر اسے مرنے دیا جائے؟ کیوں کہ مریض کی ہسٹری سے پتا چلا ہے کہ اس کو مسلسل کئی سال تک لاعلاج رکھ کر نظر انداز رکھا گیا ہے۔ کسی نے اس کے مرض پر توجہ ہی نہیں دی۔ نتیجتاً مریض لاغر سے لاغر ہوتا گیا۔ اہلِ خانہ اسے اُس وقت اسپتال لائے، جب مریض تقریباً لاعلاج ہوچکا۔ ڈاکٹروں کی ٹیم نے فوری توجہ دی۔ مختلف اقسام کی مہنگی اور مؤثر ادویہ سے علاج شروع کیا۔ کیوں کہ سستی اور عام دستیاب ادویہ سے اہلِ خانہ پر مالی بوجھ سمیت یہ مریض کے لیے بھی مفید نہیں تھیں۔ مریض کو ابھی مکمل اِفاقہ نہیں ہوا اور مزید مہنگا اور مؤثر علاج جاری رکھنے کی تجویذ دی جاچکی ہے۔ کیوں کہ مریض کی حالت بگڑتی چلی جا رہی ہے۔ ملکی ڈاکٹروں نے باہر ممالک سے بھی ماہر ڈاکٹروں کو بھی بلایا۔ مرض کی تشخیص اور علاج معالجے میں مدد مانگی۔ انہوں نے مزید ٹیسٹ اور علاج تجویذ کیا، لیکن اہلِ خانہ نے اپنے ڈاکٹرز پر نااہلی کا الزام لگایا اور بیرونِ ملک سے آئے ہوئے ماہر ڈاکٹروں کی تشخیص اور علاج کو بھی یکسر مسترد کرکے اسپتال کے خلاف ہڑتال کا اعلان کردیا۔
قارئین، اب یا تو مریض کو اس کی حالت پر چھوڑ کر اسے موت کے منھ میں دھکیلنا چاہیے اور یا مریض کی صحت یابی تک مکمل علاج جاری رکھا جانا چاہیے۔ ڈاکٹروں کو یقین ہے کہ ان کا مریض ایک یا دو سال میں اپنے پاؤں پر چلنے پھرنے کے نہ صرف قابل ہوجائے گا، بلکہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مل کر ان کے گھر کا بوجھ اٹھانے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔ کیوں کہ مریض گھر کا واحد کفیل ہے اور اس کا زندہ رہنا اہل خانہ کے لیے بھی ضروری ہے۔
قارئین، مریض کی موت یا مسلسل لاغری اور کمزوری کی صورت میں اس کے ہمسائے اور ہمسایوں سے ملے چند رشتہ دار مریض کے خاندان کے دوسرے افراد کو نوچنے کے لیے اس کے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن مریض کے بائیس افراد پر مشتمل اہلِ خانہ کی اکثریت زیادہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتی، اور وہ آس پاس کے مشورہ خانوں اور خانموں جو خود بھی عقل و فکر سے مکمل آزاد ہیں، کے بے کار مشوروں میں آجاتے ہیں، اور ان ہی کے کہنے پر وہ مشتعل ہوجاتے ہیں۔ کبھی وہ ڈاکٹروں پر یلغار کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، تو کبھی اسپتال کے دروازہ پر کھڑے ہوکر ہر آنے جانے والے کی راہ میں رکاؤٹ ڈال کر تکلیف کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔
قارئین، اہلِ خانہ کے افراد میں مالی لحاظ سے ذرا خوشحال مگر دماغی لحاظ سے بدحال ان کا سربراہ جو سر پر سفید یا تیلادار ٹوپی پہن کر ڈاکٹرز کے خلاف ہڑتالوں کی سرپرستی کر رہا ہوتا ہے، خوب گرجتا برستا ہے۔ بلکہ ڈاکٹروں کی تشخیص اور مہنگے علاج معالجے پر بھی خوب تنقید کے تیر برسا رہا ہوتا ہے اور اسی پرانے حکیم سے علاج پر بضد ہے، جس کی وجہ سے مریض اس حال تک پہنچا ہوا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ مریض کے خاندان میں وہ بااثر اور مالی لحاظ سے خوشحال ہے اور اسپتال کے علاج کے خرچ کا کچھ نہ کچھ بوجھ کہیں اس کی جیب پر نہ پڑے۔ لہٰذا اسے مریض کی تشویشناک حالت کی کوئی فکر نہیں۔ وہ تو بس اپنے دو چار پیسوں کی فکر میں ہے۔
قارئین، مریض کے خاندان کے دوسرے افراد اس کی چالاکی کو سمجھ نہیں پا رہے، یا انہوں نے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور ان کی آواز پر ”لبیک“ کہہ رہے ہیں۔ ڈاکٹروں نے بہت سمجھایا ہے کہ علاج جاری ہے، آپ لوگ ذرا شانت ہوجائیں۔ تحمل اور برداشت سے کام لیں۔ کیوں کہ یہ تو آپ لوگوں کا ہی قصور تھا کہ مریض کا علاج ابتدا میں نہیں کیا۔ مرض بڑھتا گیا اور جب مریض لاعلاج ہونے کے قریب ہوا تو اس کو اسپتال میں داخل کیا گیا۔ اس کی حالت پہلے سے ہی غیر تھی۔ اس میں ڈاکٹروں کا کوئی قصور نہیں، مگر اہلِ خانہ کے بائیس افراد میں سے دو چار سے زیادہ ڈاکٹرز کی رائے سے متفق نہیں ہیں۔ وہ بھی سر پکڑ کراپنی غریبی کا رونا رو رہے ہیں کہ ہائے اتنے مہنگے علاج نے تو ہماری کمر ہی توڑ دی۔ وہ ہائے ہائے کرتے جا رہے ہیں، اور ڈاکٹرز مریض کا علاج کرتے جارہے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کون جیتتا ہے اور کون ہارتا ہے!
نوٹ:۔ ڈاکٹروں کی ٹیم میں ہر قسم کے ڈاکٹرز موجود ہوتے ہیں۔قابل، درمیانہ درجہ کے، نالائق اور حتی کہ سفارشی بھی لیکن دورانِ علاج ٹیم ورک ہوتا ہے اورایکسپرٹیز بھی۔ سب اپنے اپنے فیلڈ میں مہارت کے مطابق علاج کر رہے ہوتے ہیں۔ تحریر کی حالات کے ساتھ موافقت محض اتفاق ہوگی، راقم۔
بے چارہ مریض
