خورشیدعلی
سوات میں سلک انڈسٹری ریاستی دورمیں تقریباء 1960میں قائم کی گئی تھی ، جس کا سہرا والی سوات جناب میانگل عبدالحق جہانزیب کے سر جاتا ہے جس سے سوات کی معیشیت کافی مظبوط ہوگئی تھی ،ریاستی دور میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کیلئے سلک انڈسٹری کی کافی حوصلہ افذائی کی گئی تھی ،

2000 تک سوات کے چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں میں تقریبا 500 کے قریب سلک مل بن گئی تھیں ،جو دن رات کام کرتی تھی، ان سلک ملوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے سابق متحدہ لیبر یونین کے صدر معراج نبی کا کہنا ہے کہ سوات میں 2000 تک 500 سلک ملیں تھی جن میں تقریبا 30 ہزا ر سے زائد مزدور اور کاریگر کام کرتے تھے،جس میں سوات کے علاوہ دوسرے اضلاع بونیر، شانگلہ ، دیر ، پشاور ، فیصل آباد کے مزدور اور کاریگر بھی شامل تھے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ مزدور پندرہ دن میں 7 سے لیکر 10 ہزار تک روپے کماتے تھے،جس سے ان مزدور وں کے اخراجات پوری ہوتی تھی ،سوات میں سلک ملز کاریگر کی بڑی عزت ہوتی تھی

پورے سوات میں ہر جگہ سلک ملیں تھی ، اور یہ ملیں اکثر سڑک کے کنارے تھے ،2007 میں جب اپریشن شروع ہوا تو یہ سلک انڈسٹری تقریبا بند ہوگئی، اب حال یہ ہے ان انڈسٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد کچھ ہزار تک رہ گئی ہے، اور اس مہنگائی کے دور میں ان کو پورے مہینے میں 5000 روپے بھی نہیں ملتے ۔ جو ملیں بند ہوگئیں ہیں ان کے مزدور اب کیا کرتے ہیں ان کے گھر کے اخراجات پورے ہوتے ہیں کہ نہیں تو اس سوات کے جواب میں متحدہ لیبر یونین سلک ملز کے ضلعی سابق صدر معراج نبی نے کہا کہ جوسلک ملیں بند ہیں ان کہ مزدور ایک دن کے اجرت پر کام کرتے ہیں ،صبح سویرے گھر سے نکل کر چوکوں میں کھڑے ہوتے ہیں اوردیہاڑی کا انتظار کرتے ہیں ، معراج نبی نے کہا کہ ان مزدوروں میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو بھیک مانگنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کی بینائی چلی گئی ہے، ان کے فلاح وبہبود کیلئے ابھی تک کسی صوبائی محکمہ یا ضلعی انتظامیہ نے کچھ نہیں

سوات سلک مل کے مالک ممتازنے کہا کہ 2000 تک پاکستان اور افغانستان کے درمیان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی وجہ سے سوات ایک انڈسٹری زون بن گیا تھا،ان سلک انڈسٹریوں میں کام کرنے والے غریب مزدور بھی خوشحال بن گئے تھے اور ان کو اچھی خاصی رقم ملتی تھی جس سے غریب مزدوروں کے گھروں کے اخراجات پوری ہوتے تھے ۔اور ان کو اچھی خاصی رقم بھی بچ جاتی ، لیکن جب 2000 کے بعد افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ختم ہوگیا تو اس وقت سے سوات میں سلک انڈسٹری کا زوال شروع ہوگیا تھا، کیونکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی وجہ سے ان سلک ملوں کو جوسستا دھاگاملتا تھا ۔اس پر پابند ی لگ گئی ،جس سے یہ انڈسٹری مشکلات کا شکار ہوگئی ،اور اہستہ اہستہ سلک ملیں بند ہونے لگیں،

سوات میں امن کی بحالی کے بعد ان ملوں کو کوئی مراعات نہ مل سکی اور مالکانان کو نا کوئی معاوضہ مل سکا۔انہوں نے کہا کہ سوات میں کشیدگی سے پہلے میرا مل 24 گھنٹے چلتا تھا اور اس میں 90 کے قریب مزدور اور کاریگر کام کرتے تھے، لیکن اب حالت یہ ہے کہ سوات میں تو حالات بحال ہوگئے ،لیکن بجلی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اب میرا مل 5 گھنٹے بھی نہیں چلتا ۔انہوں نے کہا کہ اب اتنا منافع بھی نہیں ملتا کہ بجلی کا بل ادا کر سکیں۔
ضلع سوات میں اب صرف 20 یا 30 ملیں چالو حالت میں ہیں، سوات میں سلک مل اونرزایسوسی ایشن کے سابق صدرسرزمین لالاجی کا کہنا ہے کہ ریاستی دور میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کیلئے سلک انڈسٹری کی حوصلہ افذائی کی گئی تھی 1964 میں ایک پرمٹ ہمیں دیا جاتا تھا جس کی وجہ سے دھاگے ٹیکس کی چھوٹ دی گئی تھی ،1996 میں اسے ختم کردیا گیا اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے سستا دھاگہ انڈسٹریز کو دیا گیا ، لیکن پھر 2000 میں وہ معاہدہ بھی ختم ہوگیا جس کی وجہ سے سلک انڈسٹریز مشکلات میں گر گئی ،اور اکثر انڈسٹریز بند ہونے لگے
2007 سے لیکر 2009 تک چار سو سے زائد سلک ملز کے کروڑوں کی مشینری اونے پونے داموں فروخت ہوگئی ، جس سے سوات سمیت پورے ملک کے ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگ
ایک دور جب ملک کے تمام بڑے بڑے شہروں کراچی ،لاہور،فیصل آباد سمیت بیرون ملک سوات کا تیارہ کردہ کپڑا فروخت ہوتا تھا، جس سے ایک طرف بے روزگاری ختم ہوئی تھی تو دوسری طرف کثیر زرمبادلہ ملک کو حاصل ہوتا تھا۔
سوات کے سلک ملوں میں کام کرنے والے مزدو ر اب بھی اس امید اور انتظار میں ہے کہ کب حکومت اس صنعت کو توجہ دیگی ،اور سوات میں بند کئے گئے ملیں دوبارہ چلنے لگیں گے جس سے ایک مرتبہ پھر ہزاروں مزدور برسرروزگار ہوجائیں گے اور ان کے گھروں کے چولہے جلنے لگیں گے۔