چھے سو بارہ صفحات پر مشتمل یہ ناول ایم عنایت اللہ خان یاسرؔ نے تحریر کیا ہے۔ یہ ایک ضخیم کتاب ہے لیکن نہایت دلچسپ ہے۔ پشتو زبان میں نظم کےاب مقابلے میں نثر کم لکھی گئی ہے اور پھر نثر میں تو ناول کا شمار نہ ہونے کے برابر ہے۔ میرے مطالعہ میں صاحب زادہ محمد ادریس کے ’’پیغلہ‘‘ ناول کے بعدیہ دوسرا ناول ہے جو مجھے متاثر کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس میں پیغام بھی ہے اور ایک اصلاح کی کوشش بھی۔ یہ کتاب عام کتابوں کے مروجہ طریقۂ کار سے ایک الگ پیرائے میں پیش کی گئی ہے۔ کتاب کے چوتھے صفحہ سے ناول کا پہلا باب شروع کیا گیا ہے، پہلے صفحے پر مصنف کا نام ہے۔ دوسرے صفحے پر کتاب کا نام، مصنف کا نام، کتابت، تعداد اور قیمت درج ہے۔ پھر ایک خوبصورت انتساب ہے۔ آدھا صفحہ مصنف کی طرف سے مختصر تمہید ہے اور پھر ناول کا آغاز ہوتا ہے۔ کوئی پیش لفظ، مقدمہ، گذارش قسم کے تکلفات نہیں ہیں۔ مصنف کا تعارف بلکہ تصویر تک نہیں ہے۔ اگر چہ یہ بھی ایک مختلف اندازِ تحریر ہے لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ میں بہ طور تعارفی کالم لکھنے کے مصنف کے بارے میں کیا لکھوں؟ یہ کتاب مجھے عوامی نیشنل پارٹی کے راہنما اور اپنے دوست ابراہیم دیولئی کے ہاتھوں تحفتاً ملی ہے، جس کے لیے میں اُن کا شکر گزار ہوں اور لگے ہاتھوں ایم عنایت اللہ یاسرؔ کو بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک خوبصورت ناول لکھ کر پشتو نثر میں ایک گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ یہ ایک طرح سے مصنف کا پشتو ادب پر احسان ہے۔ برہ بانڈئ کے ہمارے ادبی دوست رشید احمد صاحب نے 2015ء میں ’’پختو ناول (سل کالہ) لکھی جس میں انہوں نے پختو ناول کے بارے میں سوسال کا احاطہ کیا ہے۔ یہ بہت مشکل اور عرق ریزی کا کام ہے لیکن اس بندے نے کمال ہنرمندی سے اسے سرانجام دیا ہے۔ اُس نے اپنی کتاب میں صفحہ 200 سے لے کر 214 تک ’’زلندہ ارمانونہ‘‘ کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ بقول رشید احمد صاحب کے اس ناول کا مقصدتعلیم کا حصول، جدید سائنس اپنانا، دنیا کے ساتھ چلنا، انسانیت دوستی، ہمدردی، عالمی امن اور بھائی چارہ ہے۔ قارئین، ڈاکٹر روخان اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔ وہ اگر چہ درمیانے طبقے کا ایک بڑا ڈاکٹر ہے، لیکن وہ صحت جیسے مقدس پیشے کو کمائی کا ذریعہ نہیں بناتا۔ وہ لوگوں سے اور غریبوں سے ہمدردی رکھنے والا انسان ہے۔ وہ اپنی ذاتی زندگی میں شرافت اور سادگی کا ایک نمونہ ہے۔ وہ روزانہ اپنے علاقے کے گندی دیہاتوں میں جاکر کچے مکانوں اور جھونپڑیوں میں غریبوں کا مفت علاج کرتا ہے۔ اس حوالے سے درپیش ہر قسم کے خطروں سے بے نیاز ہوتا ہے۔ علاقے کے ایک بڑے مالدار تجارت پیشہ آدمی کی بیٹی شگفتہ صرف اس وجہ سے ڈاکٹر روخان کو ٹھکراتی ہے کہ وہ سادہ مزاج کا انسان ہے، اُس میں غرور نہیں ہوتا، وہ طبقاتی فرق اور امتیاز پر یقین نہیں رکھتا، وہ انسانیت، شرافت، محنت اورخلوص کو انسانی معیار اور کسوٹی تصور کرتا ہے جب کہ شگفتہ اپنے باپ کی طرح سب کچھ دولت کے ترازو میں تولتی ہے۔ پورے ناول میں ایک طبقاتی کشمکش کی نشان دہی کی گئی ہے۔ مالدار اور اونچے طبقوں کی عادات و اطوارکا جائزہ لیا گیا ہے کہ کس طرح لوٹ مار اور استحصال، نیز ہر جائز ناجائز ذریعے سے وہ دولت کو اکٹھا کرتے ہیں۔ عام لوگوں، نوکروں اور غریبوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ناول پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف ایک روشن خیال اور ترقی پسند انسان ہے۔ وہ عالمی امن کا داعی ہے جس کے لیے وہ ناول میں ایک پروفیسر کے ذریعے لمبی لمبی تقاریر کرواتا رہتا ہے اور ایک بین الاقوامی امن کا نظام متعارف کرواتا رہتا ہے۔ یہ تقاریر اگر چہ علمی اور معلوماتی لحاظ سے قابل ستائش ہیں، لیکن عملی لحاظ سے ناممکن دکھائی دیتی ہیں۔ ان تقاریر کو پڑھ کر مجھے کئی بار ایسا محسوس ہوا جیسے افلاطون کا یوٹوپیائی ریاست پڑھ رہا ہوں۔ ناول مختلف ادوار، کشمکش اور مرحلوں سے گزر کر ایک فیصلہ کن اسٹیج میں اُس وقت داخل ہوجاتا ہے، جب سیٹھ شمشاد اور اُس کی بیٹی اپنے ارادوں میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ اُن کی تمام سازشیں ناکام ہوجاتی ہیں۔ دولت اور سرمائے کی طاقت کے بجائے اصولوں، انسانیت اور شرافت کی جیت ہوجاتی ہے۔ بقول رشید احمد صاحب کے ناول نگار نے مرکزی کردار ڈاکٹر روخان کو ایک قابل، مضبوط ارادے کا مالک اور مقصد اور مشن کے لیے سب کچھ داؤ پر لگانے والا نوجوان پیش کیا ہے، لیکن اُسے ماورا کرداروں اور عادتوں سے نہیں بلکہ حقیقی کرداروں سے مزین کیا ہے۔ اسے ایک عام انسان جو وطن سے محبت رکھتا ہے اور عوام کے ساتھ اچھے رویے اور تعلق رکھنے کا خواہش مند ہے کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس ناول کا پلاٹ موزوں ہے اور کرداروں کا جمِ غفیر بھی نہیں کہ قاری کنفیوز ہوجائے۔ ناول نگار کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے نہایت مختصر کرداروں میں ایک بہت بڑے ماحول کو سمو دیا ہے۔ قاری، ناول پڑھتے ہوئے اپنے آپ کو اُس پورے سماجی ڈھانچے کا حصہ سمجھتا ہے جو ناول نگار آہستہ آہستہ نہایت دلچسپ انداز میں آگے لے جاتا ہے۔ قارئین، مختلف حوالوں سے ناول پر اعتراضات بھی کیے جاسکتے ہیں لیکن اتنے ضخیم ناول لکھنے اور سخت محنت کرنے کے مقابلے میں چھوٹی موٹی کمیوں کو نظر انداز کرنا آپ کی وسیع النظری پر محمول ہوگا۔ ہمیں حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کرنی چاہئے کہ پشتو ادب آگے بڑھے۔ جو محنت کرتے ہیں، عمل کرتے ہیں، تو ان سے بھول چوک تو ہوگی، کچھ بھی نہ کرنے سے کچھ کرنا بدرجہا بہتر ہے۔ ہمیں چاہیے کہ تنقید اور اعتراضات کے نشتر چلانا ذرا روک دیں۔ منفی کی بجائے مثبت رویہ اپنائیں اور لکھنے کی طرف لوگوں کو راغب کریں۔ قارئین، حاصل نشست یہ ہے کہ ایم عنایت اللہ خان یاسر کے ناول ’’زلندہ ارمانونہ‘‘ میں ایک عام قاری کے لیے بہت کچھ ہے اور یہ قاری کو بہت کچھ سوچنے سمجھنے پر مجبور کردیتا ہے۔ یہ ایک اصلاحی جدوجہد اور ترقی پسند بیانیہ ہے جو بحیثیتِ مجموعی، سماج کو آگے لے جانے کے لیے جہیز جیسے غلط رسم و رواج کی مخالفت بھی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایم عنایت اللہ خان یاسر کی کوششوں کو بارآور فرمائے اور انہیں مزید لکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔