ڈاکٹر سلطان روم
(نوٹ:۔ یہ تحریر ایک بار پہلے روزنامہ آزادی کے ادارتی صفحہ پر 22 اور 23 فروری 2012ء کوچھاپی جاچکی ہے)
یہ قریباً سبھی جانتے ہیں کہ جولائی 2010ء میں سوات میں خلاف معمول بارشوں اور کئی جگہ آسمانی بجلی گرنے کے بعد پانی کا ایک زبردست سیلاب آیا۔ مختلف ندیوں (خوڑوں )اور دریائے سوات میں پانی کا خلاف معمول بہاؤ اگر ایک طرف انسانی اورحیوانی جانوں کے ضیاع کا سبب بناتو دوسری طرف یہ منقولہ و غیر منقولہ املاک اور سڑکوں و پلوں کا پانی میں بہہ جانے کی صورت میں ایک بہت بڑی اور ہول ناک تباہی پر منتج ہوا۔ اس تباہی و بربادی کے عوامل و اسباب اگر ایک طرف جنگلات کی کٹائی کے نتیجہ میں پہاڑوں کا ننگاپن اور موسمی تغیرات ہیں تو دوسری طرف ان ندیوں اور دریا کی حدود کو تنگ کرنے، ان کے بہاؤ کے راستوں کو مسدود کرنے اور ان میں رکاوٹ پیدا کرنے اور بعض جگہوں پر ان کا رُخ موڑنے کی انسانی کوششیں اور دست درازی بھی ہیں۔
اگر چہ’’نارتھ ویسٹ فرنٹیئر پراونس ریور پروٹیکشن آرڈی ننس، 2002 ء‘‘ کی شکل میں یہ قانون موجود ہے کہ دریاؤں اور ان کی معاون ندیوں کی حدود کے کنارے 200 فٹ کے فاصلہ تک کے رقبہ پر کسی بھی قسم کی تجارتی وغیر تجارتی تعمیرات اور کسی بھی قسم کے دوسرے ترقیاتی کا م ممنوع ہیں اور پہلے ہی سے محکمہ مال نے بندوبست اراضی میں دریائے سوات اور اس کی معاون ندیوں کی حدود کا تعین بھی کیا ہے لیکن نہ صرف کالام،بحرین اور مدین جیسے سیا حتی مقامات بلکہ ہر جگہ جس کا بھی بس چلتا ہے کنارے سے دو سو فٹ دور تو درکنار دریااور ندیوں کی حدود ہی بھرواکر ان پر تعمیرات کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں ۔لیکن کسی بھی مجاز و ذمہ دار محکمہ یا اتھارٹی کو اس پر قدغن لگانے اور خلاف قانون تعمیرات بند کرنے کی کوئی فکر لاحق نہیں ہوئی۔ نتیجتاً پانی کے قدرتی گزرگاہ تنگ کرکے سیلاب کے پانی کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کرنے کے ذریعے اس کی تباہ کاری میں کئی گناہ اضافہ کا سامان کیا گیا۔
اگر دریا اور ندیوں کی حدود تنگ نہ کی جاتیں اور پانی کا بہاؤ بغیر کسی مصنوعی رکاوٹ کے اپنے اصلی حدود میں جاری رہتا تو اتنی تباہی کبھی نہ ہوتی۔ لیکن ’’جو ہو اسو ہوا ‘‘ پر بات ختم نہیں ہوئی اور اتنی بڑی تباہی و بربادی سے بھی کوئی عبرت حاصل کرنے کی بہ جائے بنی اسرائیل کی طرح ازسرنوبڑی سرکشی پر اتر کر نہ صرف دریا اور ندیوں کی حدود کو مزید تنگ کرنے کا عمل ’’چوری اور اس پر سینہ زوری ‘‘کے مصداق ڈھٹائی سے جاری ہے بلکہ ان کے بہاؤ کے اصل رُخ موڑ نے کاکام بھی جاری و ساری ہے۔ اس ضمن میں شوکت شراراور دیگر لکھاریوں کے علاوہ حاجی رسول خان صاحب نے بھی بہت کچھ لکھاہے جس کے لیے روزنامہ آزادی کے 2010ء اور 2011ء کے شمارے اور خاص کر یکم جو ن، 10 جون، 27 جون اور12 جولائی 2011ء کے شماروں میں حاجی رسول خان صاحب کے مضامین بالترتیب ’’مجھے لینڈ مافیا سے بچایا جائے‘‘،’’خوڑ کے پشتہ جات‘‘ ، ’’سواتیان مات کھنڈرساتی‘‘اور’’ہے کوئی اللہ کا پیارا……؟‘‘کو ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔
اگر چہ حاجی صاحب اوردوسروں کی ان تحاریر کا سرکاری اورامدادی رقوم سے تباہی سے بچاؤ کے اقدامات اور تدابیر کے نام پر تباہی کے اسباب پید اکرنے والو ں اور اس قسم کے کاموں پر نظر رکھنے اور ان کی روک تھام کے اقدامات اٹھانے والے اداروں پر خاطرخواہ اثر ہوتا نظر نہیں آرہا لیکن پھر بھی امید اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اس طرح کی آواز اُٹھانے کا کچھ نہ کچھ مثبت اثر اور نتیجہ نکلے گااوردریا اور ندیوں کی حدود کی پائے مالی اور حکومتی اور امدادی فنڈز اور پیسہ کے ذریعے ان کی حدود کو ہڑپ کرجانے کے کاموں اور کارروائیوں کو روک لیا جائے گا۔ باوجود اس کے کہ ابھی تک بہت کچھ کھویا اور بگاڑاجاچکاہے لیکن سب کچھ نہیں اور ’’دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق اب بھی درست سمت میں بہت کچھ کیا جاسکتاہے۔
درحقیقت یہی وہ وقت اور صورت حال تھا کہ ندیوں اور دریا کی حدود کو قابضین سے واگزار کرایا جاتا اور یہ کام بہت آسانی سے اس لیے بھی کیا جاسکتاتھا کہ دریا اور ندیوں نے اگر چہ ڈھیر ساری جگہوں پر اپنی حدود سے تجاوز کیا تھا لیکن بہت سی جگہوں پر اپنے حدود کو واگزار بھی کیا تھا۔ اس وقت بس سیاسی اور محکمانہ قوت ارادی درکارتھی جس کے ذریعہ اجتماعی بہتر مستقبل کے لیے وقتی سیاسی اور انتظامی فوائد و مشکلات کی پرواہ کیے بغیر تعمیر نو اور حفاظتی پشتوں کی تعمیر سے پہلے محکمہ مال سے دریا اور ندیوں کے اصل حدود کا تعین کیا جاتاجو کہ مہینوں میں نہیں بلکہ دنوں میں ہو سکتا تھا اور اس کے بعد انھی حدود اور دریااور ندیوں وغیرہ سے متعلق دوسرے قوانین کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور ان کی سخت پاس داری کرتے ہوئے بہ حالی، تعمیرنو اور حفاظتی پشتوں کی تعمیر کا کام کیا جاتا۔ بلکہ اگراس کے لیے کسی جگہ ضرورت پڑتی توقانون کے مطابق سختی سے بھی کام لیا جاتا۔ لیکن شومئی قسمت، کہ بہتر اجتماعی مستقبل اور دور رس فوائد کی خاطر سیاسی اور انتظامی بصارت و بصیرت اور کچھ وقتی مشکل فیصلوں کی بہ جائے وقتی اور انفرادی فوائد اور سیاسی مصلحتوں کے تحت ایک بہتر موقع کو بڑی حد تک ضائع کیا گیا اور تاحال کیا جارہا ہے۔ نہ صرف یہ کہ بہتری اور بھلائی کا ایک سنہری موقع ضائع کیا گیا (اور کیا جارہاہے) بلکہ تعمیر نو اور حفاظتی تدابیر کے اقدا ما ت کے نام پرایسے کام کیے گئے اور کیے جارہے ہیں جو مزید تباہی وبربادی ہی لائیں گے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ یہ سب کچھ سرکاری اور امدادی رقوم سے ، حکومتی اور امدادی اداروں کی سرپرستی اور سرکاری وامداد ی اداروں کے زیر نگرانی ہورہاہے۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تو مینگورہ میں مرغزار اور جامبیل ندیوں کے کناروں ازسرنو تعمیرات اور حفاظتی پشتوں کو اور دریائے سوات پر کم ازکم پولیس لائن کے ساتھ ایوب پل سے نیچے مغرب کی طرف نگاہ ڈال کر تھوڑی ہی فاصلہ پر دریا کے بیچ پشتوں کی تعمیرکا کام دیکھ لیں کہ کس طرح دریا کی حدود کو تنگ کیاجارہاہے اور پختہ پشتے تعمیر کرکے پانی کے بہاؤ کا رخ مستقلاً موڑ کر دوسری طرف مزید تباہی کا سامان تیار اور مہیا کیاجارہاہے ۔ اگر اس طرف پل کے نیچے واقعی حفاظتی پشتوں کی ضرورت ہے تو انھیں بھی پل کے جنوبی کونے سے بالکل سیدھ میں نیچے کی طرف تعمیرکیا جاناچاہیے ،جیسا کہ شمال کی جانب کیا گیاہے ،نہ کہ دریا کے بیچ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پل کو شمال و جنوب دونوں اطراف میں یک ساں طور پر وسعت دینے کی بہ جائے اسے ،کانجو کے متعلقہ لوگوں کی مخالفت کے باوجود، صرف شمال کی جانب وسعت دی گئی اور پھر پل کے نئی آخری سرے سے بالکل سیدھ میں حفاظتی پشتے تعمیر کرکے اس طرف لوگوں کا بندوبست اراضی میں مندرج لیکن اب دریاکے بہا لے جانے والے زمینوں کوبہ حال اور دوبارہ آباد کر نے سے انھیں محروم کیا گیا۔ نہ صرف پل کے نیچے والی بلکہ اوپر والی طرف بھی کانجو کی حدود میں اس سے زیادہ اندر پشتوں کی تعمیر کی جارہی ہے اور جتنا ہی اوپر جایاجارہا ہے اتنا ہی ذیادہ2010ء کے طوفا ن کے نتیجہ میں دریا برد زمین کی دوبارہ بہ حالی کی بہ جائے اسے دریا کی حدود میں شامل کیا جارہا ہے۔ جب کہ دوسری طرف جنوب کی جانب پل کے آخری کونے سے بالکل سیدھ کی بہ جائے تھوڑا نیچے ہی پرانے پل کے قریباً شمالی آخری حد کے سیدھ کے برابر ہی یعنی دریا کے اس پار حد کے بالکل آخری سیدھ کے برابرمیں پشتے تعمیر کیے جارہے ہیں، ایں چہ معنیٰ دارد۔
اس طرح کی زیادتی ریاست سوات کے دور میں بھی ہوئی تھی۔ بہت سارے لوگوں کو یاد ہے کہ دریائے سوات کا کچھ حصہ موجودہ پولیس لائن کی جگہ کے پہلو ہی میں بہتاتھا اور یہاں پر ایک دوسرے سے تھوڑے فاصلہ پر دو پل تھے۔ تاہم پولیس لائن والی جگہ (جسے پہلے چناران کہا جاتاتھا ) کے پہلو میں بہنے والے حصہ کے اوپر پشتے تعمیر کرواکے اب دریا برد ایوب پل کی جگہ کی طرف موڑ دیا گیا۔اس طرح دریا کی حدودکو مینگورہ والی سمت کی طرف سے تنگ کیا گیا۔ اگر وہ پرانی والی حدود اور دوپل برقرار رہتے تو شاید 2010ء واالا طوفان نہ تو اتنا نقصان کرتا اور نہ پل ہی کو بہالے جاتا۔
مرغزار اور جامبیل ندیوں، دریائے سوات اور دوسری ندیوں کے ساتھ یہ جو سلوک کیا جارہاہے اور بعض جگہوں پر ان کے جو رُخ بھی موڑے گئے اور موڑے جارہے ہیں۔ اللہ نہ کرے لیکن جولائی 2010ء کے آئے ہوئے سیلاب کے نصف کی صورت میں بھی اگر اس سے زیادہ نہیں ہوئی تو اس جیسی تباہی و بربادی ایک بار پھر بپاہوگی۔ اب بھی وقت ہے کہ اس پالیسی ، طرزعمل اور کاموں پر نظر ثانی کر کے اور روک لگا کر مستقبل کی تباہی و بربادی اور دنیا کے سا منے امداد اور تعمیر نو کے نام پر خیرات کے لیے ہاتھ پھیلانے سے بچا جاسکے اور کل کلاں اپنے ہی اقدامات اورہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہونے والی تباہی کا نشانہ نہ بننے پائیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے خبردار کیا ہے کہ تباہی و بربادی اور مصائب مفت میں اور بلا وجہ نہیں آتے بلکہ یہ آپ لوگوں کے اپنے اعمال اور کرتوت کا نتیجہ اور ہاتھ کی کمائی ہی ہوتے ہیں اور اس لیے بھی کہ آپ آیندہ اس قسم کے کاموں سے باز رہیں۔ جیساکہ سورۃ الشوریٰ کی آیت نمبر30 میں بتایا گیا ہے کہ جو مصیبت تم پر واقع ہو تی ہے وہ تمھارے اپنے افعال ہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس طرح سورۃ الروم کی آیت 41 میں واضح کیا گیا ہے کہ خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال ہی کے سبب فساد پھیل گیاتاکہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے شاید کہ وہ باز آجائیں۔
پانی کی گزرگاہوں یا دریائے سوات اور مختلف ندیوں کی حدود پر ناجائز تجاوز کا ارتکاب نہ صرف عوام کررہے ہیں بلکہ حکومتی سطح پر سرکاری اورامدادی ادارے بھی ایسا کررہے ہیں جو کہ ایوب پل کے نیچے کی طرف اور میونسپل کمیٹی مینگورہ کی حدود میں مرغزار اور جامبیل ندیوں پر دوسری جگہوں پر دست اندازی اور ناجائز تجاوز کے علاوہ مینگورہ پولیس اسٹیشن کے قریب کی حدود میں بھی عیاں ہیں۔ مینگورہ پولیس اسٹیشن کے ساتھ اوپر یا نشاط چوک کی طرف والے پل سے نیچے والے پل کی طرف دیکھنے پر اس کے دو میں سے ایک ڈاٹ یا کوٹھی نظر نہیں آرہی ہوتی۔ اس طرح ملابابا کے ساتھ اس نیچے والے پل سے نیچے کی طرف ندی کی حدود میں دونوں طرف سڑک نما راستے تعمیر کیے گئے ہیں ۔
یاد رہے کہ ’’پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ ،1977ء ‘‘ کے تحت ایسے کاموں اور تعمیرات کے شروع کرنے سے قبل ان کا ’’ انوائرنمنٹل ایمپیکٹ اسسمنٹ‘‘ تیار کرنا اور اس کا وفاقی انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کو داخل کرنا ضروری اور اس ایجنسی سے پیشگی اجازت لازمی ہے۔ اس پیشگی اجازت کے قانونی تقاضہ پورا کیے بغیر اس قسم کے اقدامات اٹھانے اور کام و تعمیرات کرنے والے سرکاری و غیر سرکاری اہل کاروں اور افراد کے خلاف اس ایکٹ کے تحت تعزیری قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ایسی تعمیرات و تجاوزات ’’ نارتھ ویسٹ فرنٹۓر پراونس پبلک پراپرٹی (ریمول آف اینکروچمنٹ) ایکٹ، 1977ء ‘‘کے تحت ختم اور ہٹائی جانی چاہئیں۔
بحالی اور تعمیرِ نو کے نام پر کسی حد تک تخریب اور مستقبل میں مسائل اور تباہی کے ان کاموں اور منصوبوں میں ملکی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی اور بین الاقوامی امدادی ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں یا این جی اوز برابر کے ساجھی دار ہیں، جو مروجہ قوانین اور قواعد و ضوابط کی پاس داری کا خیال نہ رکھتے ہوئے وقتی نتائج دکھانے اور پراگرس رپورٹس تیار کرنے کی خاطر ان سرگرمیوں اور کاموں میں براہ راست یا بالواسطہ شریک ہیں ۔
اگر سرکاری ، غیر سرکاریا اورامدادی اداروں کا یہی طرز عمل ہو اورو ہ اس طرح ملکی قوانین کا احترام اور پاس داری نہ کریں تو عوام سے کیا گلہ؟ ایسے کامو ں اور منصوبوں میں دریااور ندیوں کی دونوں اطراف کے لوگوں ،ان کی اراضیات اور حقوق کے تحفظ اور پاس داری کا خیال رکھنا انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بھی اشد ضروری ہے۔
اس حوالہ سے حکومت اور دوسرے تمام بالواسطہ یا بلاواسطہ متعلقہ اداروں کو اپنے کردار پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں حق ملکیت اور حق استعمال کے تصور کو سمجھنے اور اس کے لیے قابل عمل انتظامی ڈھانچہ بنانا بہت اہم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ کا م محکمہ مال کے بندوبست اراضی کے ریکارڈ کے مطابق کیا جائے ۔ محکمہ مال کے بندوبست اراضی کے اندراجات کے مطابق عمل درآمد کرنے کا نہ صرف متعلقہ مالکان اراضی بلکہ حکومتی محکمے اور اہل کار بھی پابند ہیں ۔ لہٰذا بہ حالی اور تعمیر نو کے ان کاموں اور اقدامات میں محکمہ مال کے بندوبست اراضی کے ریکارڈ اور اندراجات اور دوسرے متعلقہ قوانین کی پاس داری لازمی اور ناگزیر ہے۔
اگر اس صورت حال کو سمجھنے اور منصونہ بندی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے تو موزوں اور بہترین فیصلہ سازی میں بہت آسانی ہوسکتی ہے۔ اور اس سے ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد اور بہتر مستقبل کے لیے امید کا رشتہ بھی بنے گا۔ ورنہ ایک اور بڑی تباہی کے لیے تیار رہنا پڑے گا، جس کی ذمہ داری حکومت اوربین الاقوامی اداروں پر پڑے گی جو کہ اس ساری صورت حال کا کلیدی کردار ہیں ۔اس عمل میں اجتماعی منصوبہ بندی کے لیے تمام متعلقہ قوانین کی پاس داری کے علاوہ مختلف صاحب الرائے افراد اور جن کے اس عمل کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں کی شمولیت بھی ازحد ضروری ہے تاکہ یہ عمل مستقبل کی تباہی کے اسباب کی بہ جائے پائیدار ترقی کا عمل محسوس ہو۔