ناصر حسین
مولانا رومی سے کسی نے پوچھا زہر کیا ہے؟ فرمایا، ہر وہ چیز جو ضرورت سے زیادہ ہو!
آج کل جو چیز نوجوان نسل کا قیمتی وقت ضائع کرکے انہیں تباہ کر رہی ہے اور جو سب سے بڑا زہر ہے، وہ ہے ”پب جی“ نامی ایک گیم۔ مَیں اس کی ہرگز مخالفت نہیں کرتا، مخالفت کرتا ہوں، تو اپنی نوجوان نسل کی سوچ کی، جس نے مذکورہ گیم کو ضرورت سے زیادہ استعمال میں لاتے ہوئے اسے اپنے لیے زہر کی مانند بنا لیا ہے۔ اس گیم کا بے تحاشا استعمال نہ صرف وقت ضائع کرتا ہے بلکہ دوسرے برے اثرات بھی زندگی پر ڈالتا ہے۔
مجموعی طور پر اگر ہمارے معاشرے کا جائزہ لیا جائے، تو صاف نظر آتا ہے کہ بچے اپنے والدین کو بہت کم وقت دیتے ہیں، اور زیادہ وقت پب جی یا دوسرے فضول اور وقت ضائع کرنے والی چیزوں کو دیتے ہیں۔ ماضیِ قریب میں بچے اپنے والدین کو زیادہ وقت دیتے تھے، جس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ والدین میں موجود خصوصیات، اچھی باتیں، پیار و محبت اور ان میں موجود خوبیاں ان میں منتقل ہوجاتیں، لیکن آج کے بچے والدین کو وقت نہ دے کر خود کو ذکر شدہ چیزوں سے محروم کر رہے ہیں۔ اس کا نقصان نہ صرف انہیں خود بلکہ اگلی نسلوں کو بھی ہوگا۔ کیوں کہ کل کو جب یہ بچے خود والدین بنیں گے، تو انہیں اپنے بچوں کے ساتھ ٹھیک طریقے سے پیش آنے کا اور ان کی بہتر تربیت کا سلیقہ نہیں آئے گا۔
قارئین، صرف پب جی نہیں بلکہ دوسری غیر ضروری ایپس جیسے ”ٹک ٹاک“ وغیرہ کا بے تحاشا استعمال ہمارے نوجوانوں کی زندگی تباہ کر رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان ہماری تہذیب و ثقافت کو بھی ہے۔ یہ ایپس چوں کہ مغربی ممالک کی تخلیق کردہ ہیں، سو ان میں موجودہ ثقافت یا طریقے بھی مغربی ہیں جو ہماری نوجوان نسل نقل کرکے اپنی تہذیب و ثقافت کو مٹی میں ملا رہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں اُس قوم نے بقا پائی جس نے اپنی تہذیب کی حفاظت کی، اور وہ قوم فنا ہوئی جس نے اپنی تہذیب چھوڑ کر دوسروں کے طور طریقوں کو اپنایا۔
قارئین، اس نقصان کا ذمہ دار صرف نوجوان نہیں بلکہ والدین بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ اپنے بچوں کے پیار اور لاڈ کی خاطر ان کی ہر جائز و ناجائز خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے انہیں ایسے اندھیروں میں دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں وہ ہمیشہ کے لیے کھوجاتے ہیں۔ پہلے جب کوئی بچہ روتا تھا، تو اسے ”اللہ ھو“ کہہ کے چپ کرایا جاتا تھا، جب کہ آج کل روتے ہوئے بچے کو ہاتھ میں موبائل پکڑوا کر چپ کرایا جاتا ہے، تو آپ خود سوچیں اس میں غلطی روتے ہوئے نادان بچے کی ہے یا عقل و شعور رکھنے والے والدین کی؟ والدین کو اپنے روتے ہوئے بچوں کو چپ کرانے کے لیے موبائل فون کی ضرورت نہیں۔ نہ والدین کو بچوں سے پیار کا ثبوت دینے کے لیے ان کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کرنے کی ہی ضرورت ہے۔
ضرورت ہے، تو صرف وقت کی، جو اپنے بچوں کو دے کر انہیں پیارے نبیؐ کی مبارک زندگی کے طور طریقوں سے آگاہ کیا جائے، یا دوسرے اچھے طریقوں سے ان کی بہترین تربیت کرکے ایسا انسان بنایا جائے، جس پر دنیا ناز کرے، اور آپ کا بھی سر فخر سے بلند ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پب جی اور ہماری کوتاہیاں
