وادئ سوات اپنی فطری خوب صورتی، دل کشی اور رعنائی کی وجہ سے بِلا شبہ پاکستان کاایک حسین ترین خِطہ ہے۔ اس کے قدرتی مناظر، شفاف ندیاں، طلسماتی جھیلیں، بلند آبشار، پُرشور دریا اور بارونق میدانی علاقے ہر شخص کا دِل موہ لیتے ہیں۔
خوشحال خان خٹک نے کہا ہے کہ یہ وہ وادی ہے جو بادشاہوں کے دلوں کو خوشیوں سے بھر دیتی ہے –
سوات کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس خطۂ ارضی کا ذکر قدیم ترین کتابوں میں بھی نظر آتا ہے۔قدیم کتب میں اُسے اودیانہ (Udyana) کے نام سے پکارا گیا ہے جو سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں باغ یا گلستان ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ زمانۂ قدیم ہی سے اپنی خوب صورتی اور زرخیزی کے لحاظ سے منفرد حیثیت کا حامل رہا ہے اور اس کی یہ خوب صورتی اور دل رُبائی ہی حقیقتاً بیرونی حملہ آوروں کو اس طرف کا رُخ کرنے کی رغبت دلاتی رہی اور اس کی دل کشی خود اس کے لئے وبال جان بنی رہی۔ایرانیوں نے اُسے لتاڑا تو کبھی یونانیوں نے اس پر یلغار کی۔ بدھ مت کے پیروں کاروں کو بھی یہ علاقہ نہایت مرغوب رہا اور مہاتما بدھ کی کئی روایات کو اس سرزمین سے وابستہ کر دیا گیا۔
سکندرِ اعظم کے دور میں یونانی مؤرخین نے اس علاقہ کا ذکر اس کے دریاکی نسبت سے کیا تھا جو موجودہ دور میں دریائے سوات اور عہدِ قدیم میں سواستو (Sawastu) پکارا جاتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لفظ سویتا (Sweta) سے نکلا ہے جس کے معنی سفید یا شفاف پانی کے ہیں۔ اس علاقہ کو اس کے صاف و شفاف پانی سے بھرپور ندی نالوں ہی کی وجہ سے سواستو یا سویتا پکارا گیا ہوگا جو بعدمیں سواد اور پھر سوات بن گیا۔
اپنی تمام تردل کشی اور تاریخی اہمیت کے باوجود تاریخ کے کسی دور میں وادئ سوات میں کسی دیرپا حکومت کے قیام کا پتہ نہیں چلتا۔ تاہم یہاں کسی منظم حکومت کے قیام کا دھندلا سا عکس بُدھ مت کے دور میں دِکھائی دیتا ہے۔ اس وقت اس علاقہ میں سڑکوں کی داغ بیل ڈالی گئی تھی، نئی نئی آبادیاں وجود میں لائی گئی تھیں اور ایک بھرپور تہذیبی، سماجی اور مذہبی زندگی کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس کے بعد تھوڑے عرصہ کے لئے ہندو شاہیہ نے اس سرزمین پر ایسے وقت اپنا پرچم لہرایا جب قبیلہ یوسف زئی موجودہ علاقوں سے بہت دور افغانستان کے علاقوںمیں رہائش پذیر تھا۔ تاہم ہندوشاہیہ کا چراغ یہاں زیادہ دیر تک روشن نہ رہ سکا اور سلطان محمود غزنویؒ کی فوجوں کے ہاتھوں اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گُل ہو جانا پڑا۔
سوات کی سرزمین ایسے ہی حالات سے ہم کنار ہوتی رہی۔ وقت گزرتا گیا، مغل، درانی، سکھ اور انگریز ہر ایک نے اپنی طاقت آزماکر دیکھی لیکن ان میں کوئی ایک حملہ آور بھی اس علاقہ پر اپنی سیادت قائم نہ کر سکا۔ بالآخر 1850ء میں سید اکبر شاہ نے باقاعدہ طور پر ایک شرعی حکومت قائم کی لیکن ان کی وفات کی وجہ سے سوات پھر قبائلی دور میں چلاگیا تا آنکہ 1914ء میں سید عبدالجبار شاہ کو ریاستِ سوات کی باگ ڈور تھما دی گئی لیکن قادیانی مسلک سے تعلق رکھنے کی بناء پر اُنہیں معزول کیا گیا اور 1917ء میں حضرت عبدالغفور اخوند صاحبِ سوات کی اولاد سے میاں گل عبدالودود نے ایک منظم حکومت کی بنیاد ڈالی۔ جس نے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے ایک جدید فلاحی ریاست کی شکل اختیار کی۔
سوات کا تذکرہ بہت قدیمی کتب میں آیا ہے۔ ہندوؤں کی مقدس مذہبی کتاب رگ وید میں اُسے پہلی بار اودیانہ کے نام سے پکارا گیا ۔ پھر جب واقعات اور حالات کو ضبط تحریر میں لانے کا رواج ہوا تو قدیم سوات کے حالات تاریخ میں محفوظ ہونے لگے ۔ اس کی باقاعدہ ابتداء یونانیوں نے کی اور انہی کی تحریروں سے یہ پتہ چلا ہے کہ زمانہ قبل از تدوینِ تاریخ میں سکندرِ اعظم سے بہت پہلے ایرانی اور یونانی اس سرزمین کا رُخ کر چکے تھے۔ چناں چہ سکندر اعظم نے ان تاریخی شواہد کی روشنی میں یہاں کا رُخ کیا تھا۔
326 قبل مسیح میں جب سکندر اعظم افغانستان کی طرف سے ہندوستان پر حملہ کرنے کے لئے گیا تو اس وقت سوات، دیر، بونیر، جندول اورباجوڑ کے باشندے بدھ مذہب کے پیروکار تھے۔
سکندر مقدونی نے افغانستان سے روانگی کے وقت یونانی لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ لشکر کے ایک حصہ نے درّئہ خیبر کے راستہ پشاور کی راہ لی۔ جس کی راج دھانی اس وقت پیوکی لوتیس(Peaukelootis) پکاری جاتی تھی۔جسے بعد ازاں ’’پشکلاوتی‘‘ کے نام سے بھی پکارا گیااور جس کے معنی’’ کنول کے پھول‘‘ کے ہیں۔ محققین نے اسے موجودہ ’’چارسدہ‘‘ قرار دیا ہے۔ جب کہ لشکر کا دوسرا حصہ سکندراعظم کی قیادت میں کنڑ کے راستہ آگے بڑھنے لگا۔ یہ راستہ بہت مشہور ہے اور زمانۂ قدیم میں زیادہ تر آمد و رفت اسی راستہ سے ہوا کرتی تھی۔
وادئ کنڑ (افغانستان) سے نکل کر سکندر علاقہ باجوڑ(موجودہ پاکستان) میں داخل ہوا ۔ یہاں کے باشندے جو تاریخ میں اسپائینز (Aspasians)پکارے جاتے ہیں، مقابلہ کے لئے موجود تھے۔’’اریگائن‘‘ (Arigaion)جو محققین کے خیال میں باجوڑ یا سوات کے ناؤگئی کے قریب کوئی آبادی تھی، کے مقام پر شدید جنگ لڑی گئی۔ مورخین کے خیال میں سرزمینِ پاکستان پر یہ سکندرِ اعظم کی پہلی باقاعدہ جنگ تھی۔ سکندرِ اعظم کی منظم اور جنگ جُو فوج کے سامنے مقامی باشندے ٹھہر نہ سکے اور قریباً نو مہینے کی شدید جنگ کے بعد انہوں نے شکست تسلیم کی۔ اس کے بعد سکندرِ اعظم کو سوات کی ایک اور مضبوط طاقت اساکینیوں سے مقابلہ کرنا پڑا۔ شدید جنگ لڑی گئی۔ باجوڑ کے بعدسکندرِ اعظم دوسری بار یہاں زخمی ہوا۔ شروع میں تو اس نے تازہ زخم کو کوئی اہمیت نہ دی لیکن جب خون کی گرمی کم ہوئی اور درد کی شدت نے اُسے بے قرار کیا تو وہ چِلا اُٹھا کہ لوگ اُسے مشتری دیوتا کا بیٹا پکارتے ہیں لیکن اب اُسے احساس ہو رہا ہے کہ اس کی حیثیت ایک عام انسان کی سی ہے۔
اساکینی قبیلہ کو شکست دینے کے بعد سکندر مساگا کی طرف بڑھا۔ مؤرخین نے موجودہ منگلور کو مساگا* قرار دیا ہے۔ منگلور سوات کا ایک مشہور گاؤں ہے جو منگورہ سے مدین بحرین جاتے ہوئے سڑک کے دائیں طرف پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے۔ یہاں بہت سے آثارِ قدیمہ دریافت ہوئے ہیں۔ جس میں سکندراعظم کے دور کے سکے وغیرہ بھی ملے ہیں۔ مساگا میں شدید لڑائی کے بعد جنگ بندی ہوئی اور سکندر اپنی شرائط منوا کر یہاں سے اورا (Ora) اوربازیرہ (Bazira) نامی دو چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر حملہ آور ہوا۔ یہ ریاستیں ایک دوسرے سے متصل تھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مدد و اعانت پر یقین رکھتی تھیں۔ ریاست بازیرہ کے باشندوں نے سکندر کی افواج کا جواں مردی سے مقابلہ کیا لیکن جب وہ یونانیوں کی فوجی چال بازیوں کا شکار ہو کر اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے نکل کر میدان میں مقابلہ کے لئے نکل آئے تو وہ یونانی فوج کا مقابلہ نہ کر سکے۔ دوسری طرف سکندر نے ’’اورا‘‘ پر حملہ کرکے اُسے قبضہ کرلیا تو مذکورہ دونوں ریاستوں کے باشندوں نے شکست کے باوجود اعانت قبول نہ کی اور بھاگ کر کوہِ ارنس کی طرف چل دیئے۔ محققین کے مطابق بازیرہ موجودہ’’ بری کوٹ‘‘ اور’’ اورا‘‘ بری کوٹ سے چند کلومیٹر دور اوڈی گرام کے مقام پر آباد تھا۔
اس کے بعد سکندر اعظم نے ’’کوہِ ارنس‘‘ کی طرف پیش قدمی کی۔ جہاں اِس نے راجہ ارنس کو شکست دی اور پھر پنجاب سے ہوتے ہوئے 326 قبل مسیح عازمِ ہندوستان ہوا۔ مشہور محقق سر اولف کیرو کے مطابق کوہِ ارنس (نیا نام پیر سر) شانگلہ کے مشہور علاقہ چکیسر میں واقع ہے۔ جس پر حال ہی میں بی بی سی لندن نے بھی سکندراعظم کے حوالہ سے ایک دستاویزی فلم بنائی ہے جس سے اس بات کی مزید توثیق ہوتی ہے کہ تاریخ میں سکندرِ اعظم کے حوالے سے جس کوہِ ارنس کا تذکرہ موجود ہے، وہ شانگلہ کے چکیسر نامی علاقہ میں واقع ہے ۔
سکندرِ اعظم کے حملہ کے بعد 304 قبل مسیح میں جب اس کے مشہور جرنیل سیلوکس نے ہندوستان پر دوبارہ حملہ کیا تو اس نے دریائے سندھ کے اس پار مفتوحہ علاقے جن میں سوات،بونیر وغیرہ کے علاقے بھی شامل تھے، ہندوستان کے راجہ چندرگپتا کے حوالے کردیئے۔ چندر گپتا نے ان علاقوں کے باشندوں کو پوری مذہبی آزادی دی تھی اور ان پر بے جا پابندیاں عائد کرنا پسند نہیں کیا تھا۔
چندر گپت موریہ نے بدھ مت قبول کرلیا تھا اور اپنے وقت کا مشہور ترین حکمران سمجھا جاتا تھا۔ اس نے بدھ مت کی تبلیغ میں نمایاں حصہ لیا لیکن اس کی زیادہ توجہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی طرف رہی اور گندھارا کے علاقہ(سوات، باجوڑ،بونیر، مردان، چارسدہ ،ٹیکسلا وغیرہ) میں بدھ مت کی کسی غیر معمولی سرگرمی کا پتہ نہیں چلتا۔ چندر گپتا کے بعد اس کے بیٹے’’بندوسرا‘‘ نے 297 قبل مسیح سے 272 قبل مسیح تک اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کامیابی سے حکومت کی ۔ اس نے بھی ہندوستان میں بدھ مت کی تبلیغ پر خصوصی توجہ دی اور سندھ پار گندھارا کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔
اس کے بعدچندر گپتا کے پوتے اور تاریخِ ہند کے مشہور ترین حکمران اشوک کی باری آئی۔ اس نے 274 قبل مسیح میں مسندِ اقتدار پر براجمان ہوکر اپنے آپ کو بدھ مت کی ترقی و تبلیغ کے لئے وقف کردیا۔ بدھ مت کو ان کے عہدِ حکومت میں بہت عروج حاصل ہوا۔ ان ہی کے زمانے میں بُدھ مت کوگندھارا میں مقبولیت حاصل ہوئی اور ان ہی کے دورِ حکومت میں بُدھ مت کو ہندوستان سے نکل کر افغانستان ،سیلون اور دوسرے دور درازکے ملکوں تک پہنچنے کا موقع ملا تھا۔ اشوک کے زمانہ میں ملک کے دور دراز کے علاقوں میں کتبے نصب کئے گئے جن میں علاقہ یوسف زئی کا کتبہ شاہبازگڑھی (مردان)کے مقام پر کافی شہرت رکھتا ہے۔237 قبل مسیح میں ہندوستان اور سلطنت گندھارا کا یہ مشہور حکمران دنیا سے رخصت ہوا۔
مہار راجہ اشوک کے بعد بدھ مت کا زوال شروع ہوا۔ ہندوؤں نے پھر سر اُٹھایا۔ یونانی حکمران جو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوچکے تھے، دوبارہ اپنی حکومت کے قیام کے لئے تگ و دو کرنے لگے۔ اس دوران وسط ایشیاء کے قبائل نے اس علاقے کا رُخ کیا تو قبیلہ ساکا اور کشان وغیرہ گندھارا میں دکھائی دینے لگے۔
سوات نے عہدِ قدیم میں اس وقت نمایاں ترقی کی، جب یہاں بدھ مت کو عروج حاصل تھا۔ چینی سیاح ہیون سانگ نے اس وقت اس علاقہ کا رقبہ پانچ ہزار لی ظاہر کیا ہے جو اندازاً 833 میل کے برابر بنتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ اس وقت موجودہ سوات کے علاوہ دریائے سندھ کے مغرب کی طرف کی پہاڑیوں اور درد(انڈس کوہستان) کے علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ دوسرے چینی سیاح فاہین 400)ئ) کے مطابق اس علاقے میں بدھ کے پانچ سو معبد پجاریوں سے بھرے ہوئے نظر آتے ہیں اور پھر جب 630ء میں ہیون سانگ نے بدھ مت کے دور زوال میں اس علاقہ کو دیکھا تو اس کی چودہ سو خانقاہیں(جن میں اٹھارہ ہزار بھکشو رہائش پذیر تھے) ویران دکھائی دیتی ہیں۔ بُدھ مت کے جس قدر آثار سوات میں ملے ہیں، اتنے آثار پاکستان کے کسی اور علاقہ میں نہیں ملے ہوں گے۔ بدھ مت دور کے بہت سے آثار دریافت کئے گئے ہیں جب کہ ان سے کہیں بڑھ کر زمین کے سینے میں پوشیدہ ہیں۔ 1956ء میں ریاستِ سوات میں اٹلی کے مشہور ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر ٹوچی کی زیر نگرانی ایک پوری جماعت نے سوات کے آثارِ قدیمہ کی کھدائی کی تھی جس میںبہت سے آثار ظاہر ہوئے اور ان سے بے شمار قیمتی نوادرات برآمد ہوئے۔جن میں کچھ نوادرات تو معاہدہ کے مطابق حکومتِ اٹلی کودے دیئے گئے اور کچھ نوادرات کوسوات میوزیم میں محفوظ کرلیا گیا۔سوات میں بُدھ مت کے مشہور آثاربٹ کڑا، نجی گرام، اوڈی گرام، بری کوٹ اور جہان آباد وغیرہ کے مقامات پر دریافت ہوئے ہیں۔
بدھ مت کا زوال شروع ہوا تو ساتویں صدی کے وسط میں ہندوؤں نے بڑے منظم طریقہ پر ہندو دھرم کی تبلیغ شروع کردی اور بُدھ مت کو مٹا دینے میں کوئی کسرباقی نہ رہنے دی گئی۔ سفید ہن(جنہوں نے بدھ مت کے آثار بڑی بے دردی سے مٹا دیئے تھے) کی آمد کے بعد یعنی اندازاً 500ء سے 1000ء تک پھر کسی بیرونی حملہ آور کا پتہ نہیں چلتا۔
ہندوؤںنے مختلف علاقوں میں اپنی راجدھانیاں قائم کرلیں۔ گندھارا کے علاقہ پر وقتاً فوقتاً اقتدار بدلتا رہا۔ کبھی یہ علاقہ بالکل آزاد رہا اور کبھی کسی طاقت ور حکمران کے زیرِ اقتدار دکھائی دینے لگتا۔ بالآخر دسویں عیسوی میں ہندو شاہیہ نے اس علاقہ پر اپنا پرچم لہرایا تو اس کا اقتدار موجودہ صوبہ سرحد سے نکل کر سوات اور لغمان (افغانستان) تک دکھائی دینے لگا۔ چناں چہ بری کوٹ (سوات) سے جو ایک کتبہ دریافت ہوا ہے اس پر سنسکرت زبان میںمرقوم ہے کہ :
’’فرمان روائے اعلیٰ شاہانِ عظمیٰ کے بلند مرتبہ شاہ اور مختارِ اعلیٰ سری جیپا لا دیوا‘‘
جیپا لادیوا سے مراد راجہ جے پال ہے۔درحقیقت یہی ایک آخری ہندو خاندان تھا، جس نے گندھارا پر حکومت کی تھی۔ اس سے قبل یا اس کے بعد کسی وقت بھی کوئی ہندو حکومت اس علاقہ پرحکمران دکھائی نہیں دیتی اور اس آخری ہندو حکومت کا چراغ بھی سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں گل ہو گیا تھا۔
گیارھویں صدی کے آغاز میں جب سلطان محمود غزنوی نے افغانوں کی لشکر کی مدد سے ہندوستان پر حملے شروع کئے تو افغانوں کے لشکر کے سردار پیر خوشحال نے سوات کے غیر مسلم بادشاہ گیرا کو شکست فاش دی اور سوات میں اسلام کی ابدی روشنی پھیلائی۔اس جنگ میں پیر خوشحال خود بھی شہید ہوئے جن کا مزار سوات کے مشہور تاریخی گاؤں اوڈی گرام میں آج بھی مرجعِ خلائقِ عام ہے۔
خاندانِ مغلیہ کے الغ بیگ کو یوسف زئیوں کی مدد واعانت سے تختِ افغانستان نصیب ہوا تھا لیکن بعد میں جب اس کی نیت میں فتور آیا تو اس نے یوسف زئی اور دوسرے افغان قبیلہ گیگیانیوں میں اختلاف پیدا کردیا اور خود گیگیانیوں کا حمایتی بن کر مقابلہ پر اُتر آیا لیکن کامیابی حاصل نہ کر سکا تو یوسفزئیوں سے ایک سازش کے تحت صلح کرلی اور یوسفزئی سرداروں کو ایک دعوت میں بلا کر قتل کردیا گیا۔ ان حالات میں قبیلہ کے ایک نوجوان ملک احمد خان نے قیادت سنبھالی اور پندرھویں صدی عیسوی کے اوّل نصف میں افغانستان سے پشاور ہجرت کی۔ دلہ زاکوں سے پشاورمیں رہائش کی درخواست کی تو انہوں نے یوسفزئیوں کو دوآبہ (پشاور) میں مقیم کردیا۔ بعد ازاں یوسفزئیوں نے مردان، دیر، باجوڑ اور سوات میں سکونت اختیار کرلی۔ یوسفزئیوں نے سوات کا علاقہ ’’سلطان اویس‘‘ سے بزور شمشیر قبضہ کیا تھا۔
سوات کے قدیم باشندے جو سواتی پٹھان کہلاتے تھے، سوات سے کوچ کرتے ہوئے ضلع ہزارہ* میںبس گئے تھے جو اب بھی وہاں آباد ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سلطان محمود غوری کے دورِ حکومت میں یہاں آباد ہوئے تھے۔
مغل بادشاہ بابر کی پیش قدمی
1516ء میں مغل بادشاہ بابر جب افغانستان سے ہندوستان پر حملہ کرنے کی غرض سے جا رہا تھا تو راستہ میں کئی قبائل مزاحم نظر آئے۔ وہ جب خیبر پہنچا تو اسے اس کے اندازوں کے برعکس ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا جو جواں مردی اور بہادری میں اپنے علاقہ کے تحفظ کے لئے سب کچھ قربان کردینے پر آمادہ تھے۔ انہوں نے بابر کواپنے علاقوں سے گزرنے کی اجازت نہ دی اور سدِّ راہ بنے رہے۔
بابر جیسا حکمران بھی سرتسلیم خم کرنے والا نہ تھا، اس نے وقتی طور پر ہندوستان پر حملہ کرنے کا ارادہ ملتوی کیا اور پہلے قبائلیوں سے دو دو ہاتھ کرلینے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلہ میں پہلے پہل اس کی نظر یوسف زئیوں پرپڑی۔ لیکن وہ یوسفزئیوں کو مکمل طور پر زیر نہ کرسکا۔ چنانچہ یوسفزئیوں کے سردار شاہ منصور کی بیٹی بی بی مبارکہ سے شادی کے بعد یوسفزئیوں اوربابر کے درمیان مفاہمت ہوئی اور یوسفزئی قبیلہ کے بہت سے جنگ جو بابر کے لشکر میں شامل ہوئے ۔
اس طرح بابر یہاں سے ہوتا ہوا ہندوستان فتح کرنے میں کامیاب ہوا۔
بابر کے مرنے کے بعد بادشاہ ہمایوں نے سوات کوبزورِ شمشیر فتح کرنا چاہا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا۔
شاہ منصور کے انتقال کے بعد بایزید انصاری پیر روشن نے وزیر ستان ، تیراہ، پشاور،دیر،بونیر اور سوات میں مذہبی رنگ میں اقتدار حاصل کیا۔ اس نے اپنے مریدوں کا باقاعدہ لشکر بنایا۔ لشکر کے اخراجات پورا کرنے کے لئے بیت المال بنایا ۔ اپنے مریدوں سے باقاعدہ عشر و زکواۃ وغیرہ
لے کر اس بیت المال میں جمع کرتا تھا۔ اس نے پشتو زبان
میں ’’خیرالبیان‘‘ نامی کتاب لکھی جس میں زیادہ تر اس کے عقائد تھے۔
ہندوستان کے مغل بادشاہ اکبر اعظم نے جب نیا مشرب دینِ الٰہی کے نام سے بنایا توبایزید انصاری (پیر روشن) نے اکبر کے خلاف پراپیگنڈہ مہم شروع کی۔ بایزید کی زندگی میں سیدعلی ترمذی عرف’’پیر بابا‘‘ بونیر آئے اور ’’پاچا کلی‘‘ میں مقیم ہوکر حق و صداقت کی روشنی پھیلانے لگے۔ ہزاروں کی تعداد میں اس خطہ کے باشندوں نے انہیں اپنا مُرشد بنایا۔ ان کے مریدوں میں اخون درویزہ بابا کا نام قابلِ ذکر ہے۔ بایزید انصاری (پیر روشن) اور اخون درویزہ بابا کے درمیان مذہبی اختلافات رونماہوئے۔ دونوں کے درمیان مذہبی مناظرے ہوئے اور اخون درویزہ نے بایزید پیر روشن اور اس کے مریدوں پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ پیر روشن کو پیرِ تاریکی کا لقب دیا اور اخون درویزہ کے مرید پیرِ روشن کو پیرِ تاریک کہنے لگے۔جب کہ بایزید انصاری کے پیروکار بایزید کو پیر روشن کے نام سے پکارنے لگے۔
1585ء میں جب اکبر اعظم کی فوج مان سنگھ کی سرکردگی میں کابل جارہی تھی۔ اس وقت دریائے سندھ اور کابل کے درمیان کے خطوں کے قبائلی اکبر کے سخت خلاف ہو گئے تھے۔ جب شاہی لشکر پشاور پہنچ گیا تو یوسفزئی اور مندڑ قبیلوں نے دریائے کابل کے شمالی طرف سے اور بایزید روشن نے دریائے سندھ کے مغرب کی طرف سے شاہی قافلہ اور لشکر پر حملہ کیا۔ اس حملے میں شاہی لشکر اور قافلے کے آٹھ ہزار افراد میں سے کچھ مقتل کئے گئے اور کچھ مجروح ہوئے اور ان کا مال و اسباب قبائلی لوٹ کرلے گئے۔
1585ء کے آخر میں جب پیرِ روشن تیراہ چلا گیا تو اکبر کے صوبیدار محسن خان نے کابل کی طرف سے بایزید پیرِ روشن پر فوج کشی کی ۔ پیر روشن نے مغل لشکر کا مقابلہ کیا۔لڑائی کے دوران وہ بیمار ہو گیا۔بیماری کی حالت میں تیراہ سے بھاگ کر بونیر چلا گیا اور وہیں انتقال کیا۔ بایزید کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا جلالہ اپنے باپ کے مریدوں کا مرشد بن گیا اور مغلوں کے خلاف جنگ جاری رکھی۔ 1586ء میں اکبر اعظم نے زین خان اوربیربل کی سرکردگی میں ایک بڑی فوج یوسف زئیوں کومطیع کرنے کی مہم پربھیجی۔ اکبر کے لشکر نے بونیر پر حملہ کیا ۔ اس حملہ میں شاہی فوج کو سوات اوربونیرکے یوسف زئی قبیلوں اور جلالہ نے شکست فاش دی۔ اکبر کا مشہور درباری راجہ بیربل بھاگتا ہوا مارا گیا۔ اس کے علاوہ آٹھ ہزار سپاہی قتل ہوئے۔
اورنگزیب کے عہد سے لے کر 1748ء تک سوات، بونیر اور باجوڑ مکمل طور پر آزاد رہے اور اپنے دستور (پشتو) کے مطابق زندگی بسر کرتے رہے۔
1749ء میں جب افغانستان کا بادشاہ احمدشاہ درانی ہندوستان میں مغل سلطنت کو مرہٹوں سے بچانے کے لئے دہلی جا رہا تھا تو سوات، بونیر وغیرہ کے قبیلوں نے اپنی مرضی سے احمد شاہ درانی کی بیعت کی اور جنگ میں ان کے ساتھ شامل ہوئے۔
1823ء میں جب سردار عظیم خان گورنر کشمیر نے سکھوں پر حملہ کیا تو یوسف زئی قبیلوں کے لشکرنے درانی لشکر کی معیت میں اس کا ساتھ دیا۔
اس جنگ کے بعد امیر دوست محمد خان کے بھائیوںکے درمیان تختِ کابل کے سلسلے میں کش مکش پیدا ہو گئی جن کی وجہ سے کشمیر اور پشاور پر سکھ قابض ہو گئے۔ یوسفزئی قبیلے کابل کے سرداروں سے بدظن ہوکر خود مختار ہوگئے اور سکھوں کے خلاف صف آراء رہے۔
درانیوں کے چلے جانے کے بعد پشاور میں شہید سید احمد بریلوی(رح) برسرِاقتدار آگئے ۔انہوں نے سکھوں کے خلاف لڑائی کا اعلان کیا۔ پشاور اور مردان میں لوگ ہزاروں کی تعداد میں ان کی حلقۂ ارادت میں آگئے۔ انہوں نے اپنے مریدوں کاباقاعدہ لشکر بنایا اور سکھوں پربڑے زور وشور سے حملے شروع کردیئے۔ یوسفزئی قوم کالشکر سید احمد بریلوی کے ساتھ مل گیالیکن بد قسمتی سے سید احمد بریلوی کے ساتھ مذہبی عقاید میں اختلاف کی وجہ سے سوات کے قبیلوں نے سید احمد بریلوی سے علاحدگی اختیار کرلی ۔ ان کے متعلق یہ مشہور ہو گیا کہ وہ و ہابی ہیں۔ سید احمد بریلوی کے شہید ہونے کے بعد سوات اوربونیر میں اخون صاحب (سیدوبابا) کا تسلط قائم ہو گیا۔
1839ء میں جب مہاراجہ رنجیت سنگھ مرگیا تو سکھوں پر یک دم زوال آنا شروع ہوا۔ ان میں اتنی طاقت نہ تھی کہ سوات پر حملہ کر سکتے۔
1849ء میں جب سکھ شاہی ختم ہوگئی اور انگریز قابض ہو گئے تو سوات کی اُتمان خیل قوم نے انگریزوں پر حملہ کیا۔
1852ء میں اتمان خیل اور سوات کے ’’رانڑی زی‘‘ قبیلوں نے درہ ملاکنڈ سے انگریزوں پر دوبارہ حملہ کیا۔ اس حملہ کا جواب انگریزوں نے سختی سے دیا۔ جس کی تاب مقامی کا لشکر نہ لا سکا۔
سوات صدیوں سے قبائلی دور سے گزر رہا تھا کہ 1850ء میں اخون صاحبِ سوات(سیدو بابا) نے سوات اور بونیر کے باشندوں کے مشورے سے ستھانہ کے رئیس سید اکبر شاہ کو سوات کا بادشاہ منتخب کیا۔
جدید سوات کی پہلی شرعی حکومت کا دارالخلافہ موضع غالیگی قرار پایا۔ شریعت اسلامیہ کے نام سے حکومت نے کام شروع کیا۔ اس دوران ہندوستان کی جنگِ آزادی 1857ء کا آغاز ہوا۔ اس وقت جب کہ مذکورہ جنگ کی خبریں سرزمینِ سرحد میں پہنچنے لگی تھیں، 11مئی 1857ء کو سید اکبر شاہ وفات پا گئے۔ان کے انتقال سے اس اولین حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ انگریزوں کو، اس حکومت سے جو خطرہ پیدا ہو رہا تھا، اس کا اندازہ سر ہربرٹ ایڈورڈ کے ان الفاظ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’ اگر سوات میں شرعی حکومت اور جنگ جُو قبائل کا سربراہ سید اکبر شاہ زندہ ہوتا تو 1857ء کی جنگ کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔‘‘