قارئین، میں کوئی مذہبی عالم نہیں ہوں لیکن ایک مسلمان ہوتے ہوئے میرا خدا تعالیٰ کی ذات، پیغمبر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، تمام نبیوں، ملائکہ، الہامی کتب اور روزِ آخرت پر مکمل ایمان ہے۔ دنیا میں جب کوئی جرم کرتا ہے، تو نیچرل جسٹس، فطری انصاف اور مروجہ اخلاقی و قانونی نظام کی رو سے سزا کا حق دار قرار دیا جاتا ہے۔ اگر سزا نہ بھی ملے، تب بھی کسی غلطی یا گناہ کے سبب انسان کو احساسِ جرم پکڑ لیتا ہے۔ یہی گناہ ذہن کے خفیہ خانوں یعنی لاشعور میں رچ بس جاتا ہے اور ساری زندگی انسان کے ساتھ رہتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہی ایک دائمی سزا کافی ہوتی ہے۔ نیکی بدی، سزا اور جزا پر یقین نہ رکھنا شیطانیت تو ہوسکتی ہے لیکن انسانیت نہیں۔
دین میں رہتے ہوئے توبہ کرنے والے کو کم از کم بعد میں دوبارہ گناہ نہ کرنے کے واسطے اطمینان دلایا جاتا ہے۔ مسلسل گناہ پر قائم رہنا قابلِ معافی نہیں ہوتا۔ توبہ کے بعد یعنی گناہ کرنے کے بعد بگاڑ کی اصلاح توبہ کہلاتی ہے۔
ہمارا رب، رب العالمین، ارحم الراحمین ہے، وہ کسی کو کیوں کر سزا دے گا، کسی کو کیوں دوزخ میں ڈالے گا؟ وہ رحمان و رحیم ہے۔ وہ خالق ہے، ہم مخلوق ہیں، وہ بے نیاز ہے اور ہم مجبور و لاچار ہیں۔ اس کے لیے نیند ہے اور نہ تھکاوٹ، انسان کی طرح نہ تو وہ غمگین ہوتا ہے اور نہ ناخوش، یہ سب انسانی خصلتیں ہیں۔ وہ رنجیدہ ہوتا ہے اور نہ کبھی اسے بھوک اور پیاس ہی لگتی ہے۔ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔ اس کا کوئی ہمسر نہیں یہی ہمارا عقیدہ ہے۔ اگر وہ کسی کو سزا دے، تو قانون مکافاتِ عمل اور کاز اینڈ ایفکٹ کا سارا قانون ہی بے کار بن جاتا ہے۔ یہی قوانین اللہ تعالی کے بنائے ہوئے ہیں اور اللہ تعالی اپنی سنت کے خلاف نہیں کرتا۔
اس نکتے کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ اعمال کے نتیجے میں سزا خود مل جایا کرتی ہے۔ چوں کہ یہاں اس کائنات میں قانونِ مکافاتِ عمل سرگرم ہے، اس لئے نیکی، بدی، جزا اور سزا کا وجود قائم ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کے عمل کی کوئی سزا یا جزا نہیں، تو یہ اس کی خوش فہمی ہوسکتی اور کچھ نہیں۔ انسانوں کا تعاقب برابر جاری ہے۔ شائد ہی کسی کے برے عمل کا نتیجہ کوئی اور بھگت رہا ہو، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی اچھے یا برے عمل کا نتیجہ اس کائنات میں لازمی نکلے گا۔
اُخروی زندگی میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگا، جنت میں سچ اور دوزخ میں جھوٹ، ایک کا دوسرے میں گزر بسر نا ممکن ہوگا۔ جنت میں لغو، جھوٹ اور افترا کا سوچنا بھی محال ہے۔اس لیے یہاں کا جھوٹا وہاں پر لازمی طور جھوٹوں کے ساتھ ہوگا۔
خدائے تعالی ہم انسانوں کی طرح وجود نہیں رکھتا، وہ نور ہے۔ تمثیلی طور پر کرسی اورعرش کا ذکر قرآن میں مذکور ہے لیکن میں سمجھتا ہوں اور جہاں تک میں قرآن کو سمجھا ہوں، ساری کائنات، ارض و سما اللہ تعالی کا عرش ہیں۔ ابتدا کے بعد انتہا اور انتہا کے بعد ابتدا ہی فطرت کا قانون ہے۔ انسان زندگی کے خاتمے پر موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے اور ڈی کمپوز ہوجاتا ہے۔ایک نئی شکل ایک نئے جسم میں ڈھلتا ہے، جس کو حیات بعد الممات کا دور کہا جاتا ہے ۔
خدائے تعالی بزرگ و برتر روح ہے۔ روح کو خدائے تعالی کا امر کہا گیا ہے۔ اس کی سمجھ کسی کو نہیں۔ اس کا تھوڑا علم اگرچہ موجود ہے لیکن انسان یہ گتھی اب تک نہیں سلجھا پایا۔ خود انسانی روح بھی سر اپا راز ہے۔ خدا تعالیٰ نے انسانی جسم میں روح کی لہر دوڑا دی ہے۔ روح اور بد روحوں کے لیے بعد از مرگ علیین اور سجین مقامات مقرر ہیں۔ انسان راہِ راست پر نہ آنے کی صورت میں اپنا محاسب خود ہی ہوگا۔ کاز اینڈ ایفیکٹ(علت اور معلول) اور ’’لاز آف موشن‘‘ اس پر لاگو ہوں گے۔ پریکٹیکل سائنس اس کی گواہ ہے۔
سائنسی تحقیق کے مطابق اس کائنات میں ایسی جگہ موجود ہے جس میں ٹائم کا تصور نہیں ہے، اسے بلیک ہول کہتے ہیں۔ مطلب وہاں جوں کی توں والی صورتحال ہے۔ تو یہ ناممکن نہیں ہے کہ وہاں دوبارہ زندگی ابدی شکل میں مل جائے۔اس کائنات میں کبھی انسانوں اور حیوانوں کی آواز والیم ختم نہیں ہوسکتی اور وہ کائنات میں کسی جگہ اپنے تمام تر اوصاف کے ساتھ مطلب اپنی کمیت اور وزن کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ اس طرح تمام انسانوں کی آوازیں ہوبہو اسی طرح ازل سے تا ابد پڑی ہوئی ہیں اور اسی والیوم کو واپس لانے کے لیے سائنس تگ و دو اور تجربے کر رہی ہے۔ کائنات کا قانون ہے کہ ہر ایک چیز کے لیے فنا اور زوال ہے۔ اس کو اس طرح سمجھا جائے کہ یہی واقعات ہماری نظر اور بصارت سے غائب ہوجاتے ہیں، لیکن درحقیقت اس کے اثرات اور نتائج موجود رہتے ہیں۔
قارئین، مخلوق خالق کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ نہ ہی مخلوق یہ کہہ سکتی ہے کہ مجھے اس طرح بناؤ۔ نہ خدا کو کوئی اس بابت درخواست کرسکتا ہے کہ اسے مسلمان یا ملحد و کافر بنائے۔ یہ سوال احمقانہ ہی ہوگا کہ پیدائش سے پہلے مخلوق، خدا تعالیٰ سے درخواست کرے کہ مجھے اس طرح بناؤ یا مجھے اس جگہ اور اس خاندان میں پیدا کرو۔ خدا تعالیٰ کی صفات مشہود ہیں اور وہ عالم الغیب و الشہادہ ہے۔ دین کو کوئی نہیں سمجھ سکتا جب تک کسوٹی صرف قرآن پاک نہ ہو۔ سائنس بھی بعض کائناتی امور پر تحقیق اور ریسرچ کے لیے ٹھیک پیمانہ ہے۔ اسی طرح ہی ہم کسی موضوع پر بات کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ اِدھر اُدھر کی باتیں لانا اور اسلام و قرآن کے ساتھ نتھی کرنا انصاف نہیں ہوسکتا۔ دیگر علمی اور تجرباتی ماخذ انسانوں کے مرتب کردہ ہیں، ان میں ظن و گمان کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔ سائنسی رویے کا حامل انسان ہر گز ظن اور گمان پر نہیں چلے گا، وہ دلیل کے ساتھ بات کرے گا۔ اگر مسلمان ہے، تو قرآن اور سائنس کا تقابلی جائزہ لینا چاہے گا۔
قارئین، کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ قرآن کے بجائے دیگر تھیوریز کے بل بوتے پر مذہب اور دین پر تنقید کرے۔ اس کا واضح اور بین ثبوت یہ ہے کہ قرآن میں جا بجا ایسے ارشادات موجود ہیں جو اس وقت کے تناظر میں ناقابلِ یقین سمجھے جاتے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہی باتیں سچ ثابت ہونا شروع ہوئیں۔ البتہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان امور کو ثابت کرنے والے مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والے زیادہ ہیں۔ سائنس دانوں اور دانشوروں نے ان پیچیدہ مسئلوں کا کھوج لگایا۔ جدید سائنس یہ کہتی ہے کہ سورج پچیس کروڑ سال میں اپنے محور یعنی بڑے سورج کے حصار میں اپنا چکر لگاتا ہے۔ قرآن نے اس کی گواہی چودہ سو سال پہلے دی ہے۔ سائنس یہ کہتی ہے کہ صرف یہ کائنات نہیں ہے بلکہ اس طرح بے شمار اور بھی موجود ہیں۔ رب العالمین اس کا مظہر ہے۔ زمین ترچھی بنی ہے، زمین سورج کے گرد چکر لگاتا ہے۔ انسان کی پیدائش پہلے مٹی سے اور بعد ازاں نطفہ سے ہوتی ہے۔ حتی کہ اس کی مکمل ساخت اور بناوٹ کے امور صریحاً بیان فرمائے گئے ہیں۔ تقریباً ایک ہزار آیات ہیں، جو سائنس پر مبنی ہیں اور ہنوز اس پر تحقیقات جاری ہیں۔
مابعد الطبیعات پر انسان کی فکر انتہائی محدود ہے۔ مطلب انسان طبعی اور مادی چیزوں پر تو سوچ سکتا ہے، لیکن غیر مادی اشیا پر سوچنا اس کے بس کی بات نہیں۔ بھلا کون جانے جنت اور دوزخ کی حقیقت؟ کوئی بتا سکتا ہے کہ روح کیا ہے؟ انسان یہ تک نہیں بتا سکتا کہ احساس اور جذبات کیا ہوتے ہیں؟ البتہ اس کو کسی حد تک الفاظ کا لباس پہنا دیا گیا ہے۔کائنات پر اب تک تحقیق ابتدائی مراحل میں ہے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ جنات، ملائکہ اور شیطان پر سوچے۔ یہ ذکر شدہ امور ما بعد الطبیعات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی ذکر شدہ اشیا وغیرہ تو پھر بھی مخلوق ہیں۔ سوچئے گا ضرور کہ اس کے خالق کے بارے میں انسان کا علم کتنا محدود ہوگا؟ مکان کے رہنے والے بھلا لامکاں کے خالق کا ادراک کیسے کرسکتا ہے؟
قارئین، اس تحریر میں غلطی کا امکان موجود ہے۔ یہ میری ذاتی سوچ کا شاخسانہ ہے۔ میں نے یہ مضمون ایک ملحد کے فیس بک پر کمنٹ کے جواب میں تحریر کیا ہے۔ اس حوالہ سے اللہ تعالی ہماری راہ نمائی فرمائے، آمین!