روح الامین نایابؔ
قارئین کرام! 26ستمبر 2019ء کو بروزِ جمعرات ہائی سکول منگلور میں ایک شان دار اور پُروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس کے لیے پرنسپل صاحب، اساتذہ کرام اور سکول انتظامیہ کی کاوشیں لائقِ تحسین ہیں۔ اس تقریب کے مہمانِ خصوصی چارباغ اور علاقے کے مشہور و معروف سماجی شخصیت جناب جہانزیب خان تھے، جب کہ منگلور کی ڈھیر ساری سماجی و سیاسی شخصیات نے بہ طورِ اعزازی مہمان کے شرکت کی جس میں ملک احسان اللہ خان، سابق ضلعی ممبر سرور علی، رحمت حیات، احسان اللہ خان، شوگڑ خان، میاں انور، حبیب اللہ خان، فلک ناز خان، انور زیب باچہ اور دیگر شامل تھے۔ راقم الحروف بھی اس خوبصورت تقریب میں موجود تھا۔ اس یادگار پروگرام کی نظامت کے فرائض ابراہیم شاہ، فضل غفار اور فیض علی صدف نے ادا کیے۔ ابراہیم شاہ اور فضل غفار نے سب آنے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور مذکورہ سکول کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ 1965ء میں ریاست کے دورِ حکومت سے قائم ہائی سکول کو آج تک سیکنڈری کا درجہ نہیں دیا جا سکا، جب کہ آس پاس کے دوسرے علاقوں میں بعد میں قائم کیے گئے ہائی سکولوں کو سیکنڈری کا درجہ دیا جاچکا ہے۔ انہوں نے منگلور میں اُس گرلز کالج کا ذکر بھی کیا جسے دہشت گردی کے زمانے میں اُڑایا گیا اور آج تک اُس کی دوبارہ تعمیر ممکن نہ ہوسکی۔ انہوں نے گاؤں میں قائم پرائمری سکول کو مڈل سکول تک اَپ گریڈ کرنے کا مطالبہ کیا۔ تاکہ ہائی سکول پر بچوں کی زیادہ تعداد کا بوجھ کم ہوسکے۔ انہوں نے یہ حیرت انگیز انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ہائی سکول میں موجود اس وقت بچوں کی تعداد بارہ سو تک ہے۔ جہاں اب کمروں اور برآمدوں میں بیٹھنے کی جگہ تک نہیں۔
انہوں نے مزید یہ کہا کہ ان طلبہ کے لیے پی ٹی، پی ایم اور اے ٹی اساتذہ کرام کی ضرورت ہے جو اس وقت دستیاب نہیں۔ لہٰذا طلبہ کی تربیت اور پرورش کے لیے مزید اساتذہ کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے موقعہ پر موجود اہم سیاسی شخصیات سے اپیل کی کہ وہ ان مطالبات کے منظور ہونے میں اپنے حصے کی جدوجہد میں بھر پور کوشش کریں۔ اس دوران میں ملک احسان اللہ خان، سرور علی، میاں انور، احسان اللہ خان اور راقم الحروف نے بھی تقریب سے خطاب کیا اور سکول انتظامیہ کو اُن کے مطالبات منظور کرانے میں اپنے بھر پور تعاون کا اظہار کیا۔ ایک شان دار تقریب کے انعقاد پر سکول انتظامیہ کو مبارک باد دی گئی اور اُن کی کوششوں کو سراہا گیا۔
قارئین، سکول کے بچوں کے لیے ضلعی فنڈ سے خریدے گئے سکول بستے اور کپڑے سابق ضلعی ممبر سرور علی کی کوششوں سے ممکن ہوا۔ سرور علی کی یہ مثبت جدوجہد قابل تحسین ہے۔ قابل اور پوزیشن لینے والے طلبہ میں انعامات تقسیم کیے گئے۔ مختلف اعزازی مہمانوں کے ذریعے طلبہ کو نقد اور یادگاری ایوارڈوں سے نوازا گیا۔ طلبہ اور شرکائے تقریب نے تالیوں کی گونج میں کامیاب طلبہ کی حوصلہ افزائی کی۔
طلبہ نے بہت خوبصورتی سے تقاریر کرکے اور نظمیں گا کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور سامعین سے بے پناہ داد وصول کی۔ بعض سامعین نے متاثر ہوکر طلبہ کو نقد انعامات سے بھی نوازا۔
قارئین کرام! آخر میں طلبہ کی طرف سے ایک خاکہ پیش کیا گیا جو بہت ہی متاثر کن تھا۔ اس خاکے میں مختلف کرداروں کے ذریعے بتایا گیا کہ ”ایک غریب معذور آدمی کا بچہ ایف ایس سی میں پاس ہوچکا ہے۔ اب انجینئر کالج میں داخلے کے لیے دو لاکھ روپوں کی سخت ضرورت ہے۔ چناں چہ غریب معذور باپ اپنے گاؤں کے خان کے پاس دو لاکھ روپے قرض مانگنے کے لیے چلا جاتا ہے، لیکن حسبِ معمول اُسے دھکے دے کر اور برا بھلا کہہ کر حجرے سے نکالا جاتا ہے، اور اُسے طعنہ دیا جاتا ہے کہ اگر غریب لوگ تعلیم حاصل کریں، اور بڑا آدمی بن جائیں، تو ہماری خدمت اور غلامی کون کرے گا؟ مجبوراً معذور غریب باپ اپنے ایک دوست کے ذریعے ایک ڈاکٹر ایجنٹ کے پاس چلا جاتا ہے جو گردوں کا کاروبار کرتا ہے۔ وہ ظالم، معذور باپ کا گردہ نکال کر دو لاکھ روپے دے دیتے ہیں۔ وہ غریب معذور باپ مشکل سے گھر پہنچ جاتا ہے، اپنے بیٹے کی جولی میں دو لاکھ روپے تو ڈال دیتا ہے، لیکن خود آخری سانس لے لیتا ہے۔ اس طرح اپنے بچے کو زندگی کی روشنی تو عطا کردیتا ہے اور خود موت کے اندھیروں میں کھوجاتا ہے۔ یہی ہمارا قومی المیہ ہے، نہ جانے ایسے المیوں سے ہم کب نجات حاصل کریں گے؟
قارئین کرام! یہ ایک بھرپور اور شان دار پروگرام تھا، جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ آخر میں دوپہر کے پُرتکلف کھانے سے مہمانوں کی تواضع کی گئی، اور پروگرام بہ خیر و خوبی اختتام پذیر ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔