فاطمہ شیروانی
رنگوں، پھولوں، خوشبووں کے دیس سے واپسی کا سفر جاری تھا۔ سوات کے پہاڑ ہماری طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ واپسی کا سفر ہمیشہ سے ہی بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور پہاڑوں اور دریاوں سے واپسی تو اپنے ساتھ صرف اور صرف اُداسی لاتی ہے۔ ہمارا دل کا ایک حصہ تو انہی پہاڑوں کے پاس ہی کہیں رہ جاتا ہے۔ ادھورے دل کے ساتھ واپس میدانوں میں جانا کتنا مشکل ہوتا ہے یہ توکوئی میرے دل سے پوچھتا۔ اس سفر سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔
سوات کے ان رنگوں نے میرے اپنے وجود کو کتنے نئے رنگوں سے روشنا س کروایا یہ تو کوئی میرے دل سے پوچھتا۔ میں نے اپنے ساتھ بیٹھی نایاب اور ذوئی گڑیا کی طرف دیکھا۔ مجھے لگا کہ اس سفر کی سب سے خوشگوار یادیں ہماری دوستی کی ہی تو تھیں۔ آگے بیٹھی علینہ جس کی محبت کے نجانے کتنے ہی رنگ میں نے اس سفر میں دیکھ ڈالے تھے۔ علی بھائی جن کا پاوں زخمی تھا۔ اس کے باوجود ہم سب کو لے کر آے اور اسی زخمی پاوں کے ساتھ راستوں کو اپنا ہمنوا بنایا۔
مہوش جس کے ساتھ اس سفر میں میرا زیادہ وقت نہیں گزرا جتنا بھی گزرا وہ میرے لئے بہت قیمتی ہے۔ فلک اور فضا دونوں ہمارے اس سفر کی جان تھیں خاص طور پر فلک جس کا مہوش نے کسی بچے کی طرح خیال رکھا تھا۔ حضظہ نے تو اس سفر میں بہت بار مجھے گرنے سے بچایا۔ حافظ زاہد بھی مسکراہٹیں بکھیرتے رہے۔ ریحانہ آپا اپنی خاموش طبعیت کی وجہ سے مجھے اپنے جیسی ہی لگیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے اخلاقی لحاظ سے انہیں سب سے اوپر ہی دیکھا ہے۔
حسنین کمیانہ، نوید، سفیان، اسلم بھائی سب مسافروں کی یادیں اس سفر کا حصہ تھیں۔ ہم سوات کے راستوں سے نکل آے تھے۔ اُس روز مقدس کی سالگرہ تھی۔ مقدس ہماری بڑی پیاری دوست ہے۔ گو کہ مقدس سے میری اتنی بات نہیں ہوتی مگر ہم جب بھی ملتے ہیں ہمارے لئے وہ دن ایک نیا دن ہی ہوتا ہے۔ علی بھائی نے مقدس کی سالگرہ منا کر ہم سب کو واقعی میں سرپرائیز دیا تھا۔
کوٹ مومن آ گیا ہے
ہماری گاڑی کا رخ اب کوٹ مومن کی طرف تھا۔ وہی کوٹ مومن جس کا آتے وقت مجھے انتظار تھا۔ اب دل کہہ رہا تھا کہ کچھ وقت اور گزر جاے۔ مگر اب سب نے اپنے اپنے گھروں کو جانا تھا سو شہزادی کی رخصتی کا وقت بھی آن پہنچا تھا۔
اُتریں نایاب۔۔۔ ۔ کوٹ مومن آ گیا ہے ؛
علی بھائی نے نایاب کا بیگ اُتار کر نیچے رکھا۔ میں اور علینہ بھی ساتھ ہی نیچے اُترے تھے۔ ہم ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ اب کی بار پہلے سے زیادہ اپنائیت اور بے تکلفی تھی۔ زوئی ایک طرف کھڑی اُداس نظروں سے سب کو دیکھ رہی تھی۔ میں نے بے اختیار اس سیانی کو گلے لگایا جس نے چند ہی دنوں میں اپنی معصومیت سے سب کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ ہم نے اب ملتے رہنا تھا کیونکہ محبت بھرے جس رشتے میں ہم سب بندھ گئے تھے۔ اُس نے اب ہمیں ایک دوسرے سے دور کہاں دہنے دینا تھا۔
ہماری گاڑی تیزی سے اپنی منزل کی جانب گامزن تھی۔ مسافر پھر سے چارج ہو چکے تھے۔ ایک بار مشاعرہ کرنے کے بعد اب تیز میوزک کے ساتھ سفر کو مزید خوشگوار بنا رہے تھے۔ لاہور قریب ہی تھا۔ آوارہ گردوں کو اپنے ٹھکانوں پر اب واپس جانا تھا۔ گھر یاد بھی آ رہا تھا۔ سچ تھا گھر جیسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہماری گاڑی جیسے ہی لاہور میں داخل ہوئی۔ دل کسی مانوس سی خوشبو کے زیراثر آ گیا۔ اب سب اپنے اپنے ٹھکانوں پر اُتر رہے تھے۔
میری منزل بھی آ چکی تھی۔ سب کو الوداع کہنے کے بعد اب میں گھر کی طرف جا رہی تھی۔ مگر میرے ساتھ کتنی ہی یادیں تھیں جو کہ میرا سرمایہ ہیں۔ گو کہ اب اس سفر کو بہت دن گزر چکے ہیں۔ مگر سوات کے رنگ اتنے گہرے ہیں کہ میں ابھی بھی ان کے حصار میں ہوں۔ آپ بھی مشرق کے اس سوئیزلینڈ ضرور جائیں پھر آپ بھی کہیں گے کہ ان رنگوں سے زیادہ خوبصورت رنگ آپ نے نہیں دیکھے۔ یقین نہیں آتا تو آزما کر دیکھ لیں۔