روخان یوسفزئی

قدرت نے انسان کو سب سے بڑا طاقت ور معجزہ جو عنایت فرمایا ہے وہ ہے لفظ، یعنی زبان اور اسی زبان کے ذریعے ایک انسان اپنے خیالات و محسوسات کو دوسرے انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ اس لحاظ سے انسان کے سارے جذبات، تصورات، خواہشات، امیدیں اور خواب عرض یہ کہ انسانی زندگی کا ہر پہلو انہی الفاظ (زبان) کا محتاج اور منت بار رہا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق پشتو دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک قدیم زبان ہے، تقریباً پانچ ہزار سال قبل از مسیح سے پختون قوم اور ان کی زبان کے وجود کی نشاندہی ہوئی ہے کیوں کہ دنیا کی کوئی بھی قوم بغیر زبان کے پیدا نہیں ہوتی۔ کروڑوں افراد کی بولی اور لکھی جانے والی اس زبان کو کچھ ماہرین لسانیات نے سنسکرت کی ماں قرار دیا ہے۔ ابتداء میں اس زبان کا رسم الخط خروشتی بنایا گیا جو کہ دائیں سے بائیں طرف لکھا جاتا تھا۔ آج سے کافی عرصہ پہلے ایران کے علاقے سیستان میں ایک بہت ہی قدیم کتبہ ملا ہے جس کے متعلق ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ وہ تقریباً چار ہزار سال قبل از مسیح کا ہے۔ اس کتبہ پر خروشتی زبان کی طرز تحریر میں درج ذیل تین جملے لکھے ہوئے ہیں،
نہ اڑیک یم (نہ میں ضدی یا اڑیل ہوں)
نہ دروغ زن یم (نہ میں جھوٹا ہوں)
نہ زور کڑے یم (نہ میں زور آور یعنی جابر ہوں)
ان حوالوں کی موجودگی سے پشتو زبان کی قدامت مسلم ہے کیوں کہ ’’اوستا‘‘ وید اور مہابھارت میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اسی طرح یونانی مورخین سترابو اور ہیرو ڈوٹس نے بھی سکندر کے حملے سے پہلے اس زبان کا ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کا نام ’’دفتر شیخ ملی‘‘ بتایا ہے۔ جہاں تک جدید تحقیق سے معلوم ہو سکا ہے تو سن 200 ہجری سے سن 700 ہجری تک کئی پشتو کتابیں جن میں (د سالو وگمہ، بستان الاولیائ، د خدائے مینہ، غور غشت نامہ اور تاریخ سوری ) کا ذکر موجود ہے مگر صرف ناموں کی حد تک، خود کتابیں تاحال ناپید ہیں۔ ان ذکر شدہ کتابوں میں صرف تذکرہ الاولیاء نام کی کتاب کے چند اوراق ملے ہیں جس کا مولف سلیمان ماکو ہے۔ یہ کتاب 612 ہجری میں لکھی گئی جو غالباً سب سے قدیم کتاب ہے اور اب تک دستیاب ہے۔ چوں کہ پشتو زبان میں شاعری کا ذخیرہ بہت زیادہ اور نثر کا کم رہا ہے اسی وجہ سے اس زبان نے علمی میدان میں دیگر زبانوں کی طرح ترقی کی وہ منزلیں طے نہیں کیں جو اسے طے کرنی چاہیے تھیں۔ انگریزوں کی آمد اور چھاپہ خانہ کی ایجاد سے آہستہ آہستہ اس زبان میں بھی طباعت کا کام شروع ہوا۔ انگریزوں نے جب دیکھا کہ یہ لوگ پشتو زبان کے علاوہ دوسری زبان کو بہتر طور پر پڑھ اورنہیں سمجھ سکتے تو انہوں نے یہاں معاشرتی لین دین، سیاسی رابطوں اور خصوصاً اپنے مذہبی عقائد کی تبلیغ کے لیے سب سے پہلے پشتو زبان میں اپنی مذہبی کتاب انجیل کا ترجمہ کر کے 1818ء میں شائع کی۔ دوسری کتاب یعنی کتاب مقدس کا آخری حصہ 1824ء میں، اس کے بعد 1847ء میں بابو جان کی دعائے سریانی، دیوان عبدالرحمن بابا سے انتخاب، افضل خان خٹک کے علم خانہ دانش سے انتخاب اور اخون درویزہ کے محزن الاسلام کا کچھ حصہ کتابی صورت میں منظر عام پر آیا۔ افغانستان میں بھی بہت زیادہ کتابیں چھپیں۔ اسی طرح 1818ء سے 1892ء تک بے شمار مذہبی ادبی اور تاریخی کتابیں شائع ہوئیں جن کی تعداد 167 تک بنتی ہے۔ بعد میں پشتو زبان کی ترقی اور ترویج کے لیے حکومت افغانستان اور یہاں کی مشہور اصلاحی تحریک ’’تحریک اصلاح افاعنہ‘‘، جس نے بعد میں خدائی خدمت گار تحریک کی شکل اختیار کی اور اس کی قیادت خان عبدالغفارخان المعروف باچا خان کر رہے تھے، نے بھی پشتو زبان کے سلسلے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ دور جدید میں قدم رکھتے ہی پشتو زبان ایک نئی دنیا سے متعارف ہوئی، نئے نئے تجربوں سے گزری، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ آج کے دیگر مشینی ذرائع ابلاغ یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی، کمپیوٹر، موبائل فون، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی بے پناہ سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پختونوں نے اپنی زبان کو دیگر زبانوں کے ساتھ ترقی کی اس دوڑ میں شامل کرنے کی خاطر تگ و دو شروع کی ہے۔ آج پوری دنیا میں انفارمیشن ٹیکالوجی کا دور دورہ ہے۔ ان مشینی حالات میں ہر قوم کو اپنی زبان، تہذیب اور ثقافت کو زندہ اور محفوظ رکھنے کے لیے بہ امر مجبوری اس مشینی دوڑ اور مقابلے میں شامل ہونے کے لیے ان تمام ذرائع ابلاغ کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانا ہو گا جو آج کی دنیا کے لیے ضروری ہے۔ اس سے غفلت برتنے، ڈرنے اور شکست کھانے والی قوم کو یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ یہ رویہ اور عمل قوم اور ان کی زبان و ثقافت کو صفحہ ہستی سے بھی مٹا سکتی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اکیسویں صدی میں ایک منظم کلچر کی شکل میں مختلف تہذیبوں اور زبانوں کے سامنے آکھڑی ہوئی ہے، آئی ٹی کلچر کی اس یلغار کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ نقصانات یہ ہیں کہ جو تہذیب، جو قوم یا جو زبان اس کلچر کا راستہ روکنے کی کوشش کرے اس کی اپنی بقاء خطرے میں پڑ جائے گی یا جس زبان نے بھی اسے توجہ نہ دی اور خود کو اس دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا تو یہ اقدام خود اس کے زوال کا باعث بنے گا۔ فائدہ ایک نہیں ہزار فائدے ہیں۔ پشتو زبان بھی آج اسی آئی ٹی کلچر کی یلغار کی زد میں ہے۔ سوچنے والے سوچتے ہیں کہ پشتو زبان اس کلچر کے سامنے ٹک نہیں سکے گی اور خدشہ ہے کہ یہ زبان بہت پیچھے رہ جائے گی لیکن پشتو زبان کی ترویج کے لیے آئی ٹی شعبے میں کام کرنے والے پرامید ہیں بلکہ وہ تو دعویٰ کرتے ہیں کہ آج پشتو زبان اس حوالے سے انگریزی کا مقابلہ کر رہی ہے اور اسے کئی زبانوں پر اس وقت سبقت حاصل ہے۔ اس کی ابتداء 80ء کی دہائی سے ہوتی ہے جب کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے پر پرزے پھیلانے شروع کیے۔ (جاری ہے)