وادئ سوات کا عروس البلاد مینگورہ اس خوب صورت اور دِل رُبا وادی کے ماتھے پر حسین جھومر کی مانند سجا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ شہر اپنی جدیدتعمیرات، خوب صورت ہوٹلوں، پُررونق بازاروں، ملکی اور غیر ملکی سیاحوں اور قرب و جوار میں بکھرے حُسنِ فطرت کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے باعث منفرد خصوصیات کا حامل ہے۔ 25 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ شہر پشاورشہر سے 170 کلومیٹر اور راولپنڈی سے 254 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ منگورہ سطح سمندر سے 3200 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور اس کی آبادی 2 لاکھ نفوس سے تجاوز کر چکی ہے۔
مینگورہ کو سوات کے سب سے بڑے تجارتی، صنعتی ،تعلیمی اور ضلعی صدر مقام کی وجہ سے اہم مرکزی شہر کی حیثیت حاصل ہے۔ جس پر سوا ت کے تمام چھوٹے بڑے علاقوں کی روز مرہ ضروریات کا انحصار ہے۔ منگورہ، قدیم تہذیب و ثقافت اور ہر طرح کی مقامی و بین الاقوامی مصنوعات کا مرکز ہے۔ اس کا مین بازار پورے سوات کا دل ہے، جہاں ہر قسم کی ملکی اور غیر ملکی اشیاء باافراط دستیاب ہیں۔یہاں آنے والے سیاحوں کے لئے پہلا پڑاؤ منگورہ ہے جہاں سے سیاح وادئ سوات کے ہر علاقے کی سیر کے لئے روانہ ہو سکتے ہیں۔
مینگورہ کا قدیم نام’’ منگ چلی‘‘ ہے جس کا کوئی واضح اور متعین مفہوم معلوم نہیں، تاہم اس نام کا ذکر پہلی دفعہ چین کے بُدھ مذہب کے مقدس زائر ہیون سانگ، فاہیان اور سنگ یون نے اپنے سفر ناموں میں کیا ہے۔ ان سیاحوں کی آمد کا سلسلہ 403ء میں شروع ہوا تھا جنہوں نے بعد میں اپنے مشاہدات، سفرناموں کی شکل میں قلم بند کئے تھے۔ قدیم زمانے میں سوات بدھ مذہب کا مقدس مرکز رہا ہے۔ یہیں سے یہ مذہب چین، تبت اور بھوٹان وغیرہ کی طرف پھیل گیا تھا، اس لئے ان ممالک بالخصوص چین کے بُدھ زائرین سوات میں بدھ مت کے مقدس مقامات کی زیارت کے لئے بہت بڑی تعداد میں آتے تھے۔ علاوہ ازیں مشہور محقق اور مستشرق میجر راورٹی نے منگورہ کا ذکر اپنی تحریروں میں ’’منگوڑا‘‘ اور’’ منگراوڑہ‘‘ کے ناموں سے بھی کیا ہے۔ چناں چہ بعد میں یہ نام ہوتے ہوتے’’ منگورہ‘‘ کے روپ میں ڈھل گیا۔
مینگورہ عہد قدیم میں بدھ مت کا ایک روحانی اور تاریخی شہر رہا ہے جس کاثبوت یہاں برآمد ہونے والے بدھ مت کے قدیم آثار سے ملتا ہے۔
سوات کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ مینگورہ کی پرانی آبادی جو بت کڑہ میں تھی، چوہوں کی وجہ سے تباہ ہوئی تھی۔ لوگوں نے چوہوں کی تباہ کاریوں سے تنگ آکر اپنے گھر بار چھوڑ دیئے تھے اور بت کڑہ سے متصل ’’مکان باغ‘‘ میں منتقل ہوگئے تھے جو آج کل بھی اندرون منگورہ واقع ہے۔ اس کے بعد منگورہ کی بیشتر آبادی مین بازار کی حدود میں آباد ہونا شروع ہوئی۔ بعد میں منگورہ کی آبادی مزید پھیلتی گئی اور آج کل منگورہ کی حدود رحیم آباد، فیض آباد، پانڑ، فضا گٹ، نوے کلے اور اینگرو ڈھیرئی تک پھیل چکی ہیں۔
منگورہ بلند و بالا پہاڑوں سے گھرا ہوا خوب صورت اور صاف ستھرا شہر ہے۔ یہ دریائے سوات کے کنارے آبادہے ۔ اس کے قرب وجوار میں سیاحوں کے لئے بہت سے دل کش اور تفریحی مقامات موجود ہیں جن میں سیدو شریف خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ منگورہ کی زیادہ تر آبادی یوسف زئی پشتونوں پر مشتمل ہے جوبے حد محنتی، جفاکش اور حب وطن کے جذبے سے سرشار ہیں۔ یہاں کے بیشتر لوگ تعلیم یافتہ، مہذب، باشعور اوربہت مہمان نوازہیں۔ مقامی باشندے عام طور پر شلوار اور قمیض زیب تن کرتے ہیں جو مقامی اور قومی لباس ہونے کے ناطے اُن کا طُرّئہ امتیاز بھی ہے۔
سوات ائیر پورٹ جاتے ہوئے راستے میں کانجو سے پہلے ایُوب برج(پل) آتا ہے جو دریائے سوات کے اوپربناہوا ہے۔ اس پل پر سے دریائے سوات اور ارد گرد کے حسین مناظر کا نظارہ دل و دماغ کو فرحت اور تازگی کا ایک خوش کن احساس بخشتا ہے۔ ایوب پل کے قرب و جوار میں دریائے سوات سے چھوٹی چھوٹی نہریں قریبی کھیتوں کی سیرابی کے لئے نکالی گئی ہیں جو مناظر کو دل فریب بنا دیتی ہیں۔
منگورہ قدیم تجارتی مرکز ہے اور اس کی یہ حیثیت صدیوں سے مُسلّم ہے۔ یہاں کے قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں کے مکین تازہ پھل ،دودھ او ر سبزیاں منگورہ کی منڈھیوں میں لاتے ہیں جن میں پہاڑوں کی خطرناک چوٹیوں میں اُگنے والی قیمتی جڑی بوٹی ’’گوجئی‘‘ (سیاہ کھمبی یا مشروم)’’لاڈورے‘‘ اور’’کونجے‘‘(منفرد قسم کے مقامی ساگ) کافی مشہور ہیں۔ پھلوں میں سیب، ناشپاتی، اخروٹ،انگور اور املوک (جاپانی پھل) یہاں وافر مقدار میں فروخت ہوتے ہیں۔
مینگورہ کے مین بازار میں ملکی اور غیر ملکی کپڑا، الیکٹرونکس کے سامان، زری اور شیشے کے کام کے ملبوسات، واسکٹ اور قمیض، خوب صورت سواتی ٹوپیاں اور دست کاری و کشیدہ کاری کی دیگر نفیس اشیاء سیاحوں کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ زمرد اور دیگر قیمتی پتھروں کی دکانیں بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ میں بازار میں الیکٹرونکس کے سامان کے لئے محبوب الیکٹرونکس اور نیو روڈ پر اوورسیز الیکٹرونکس کی دُکانیں بہت مشہور ہیں۔
مینگورہ میں عمدہ ہوٹل اور ریستوران بھی واقع ہیں۔ خاص طور پر نشاط چوک میں تِکّہ کڑاہی اور مرغ کڑاہی کی اشتہا انگیز خوشبو ہر طرف پھیلی ہوتی ہے۔ یہاں لذیذ چپلی کباب بھی ملتے ہیں جن کا ذائقہ نہ بھولنے والا ہے۔ چپلی کباب میں نوشاد کے کباب اور عام کیفے میں مکرم خان کا کیفے بہت مشہور ہے۔ ہوٹلوں میں یہاں ’’پامیر،سوات سیرینا، رائل پیلس، فضا گٹ ہوٹل ، راکاپوشی اور سوات کانٹیننٹل وہ ہوٹل ہیں جنہیں کسی بھی اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں کے ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ منگورہ میں اوسط درجے کے بھی درجنوں ہوٹل موجودہیںجن میں سیاحوں کے لئے قیام و طعام اور ٹیلی فون کی جدید سہولتیں موجود ہیں۔ منگورہ میں شام کے وقت پلوشہ سینما کے قریب نیو مدین روڈایک پُر رونق جگہ ہے، جہاں زیادہ ترکیفے اور ریستوران واقع ہیں۔ ان میں کیفے کہکشاں، علی کبانہ اور خوراک محل زیادہ مشہور ہیں۔ یہاں کے سیخ کباب، کڑاہی تکے، مرغ کڑاہی، چکن اور روسٹ چکن ذائقہ اور لذت کے لئے خاص شہرت رکھتے ہیں۔
سیاحوں کی سہولت کے لئے واحد اورباقاعدہ ادارہ ’’سوات ٹوورازم کلب پاکستان‘ گلشن چوک منگورہ میں شائقین سیاحت کے لئے موجودہے جو مہمانوں کے لئے وادئ سوات اور شمالی علاقہ جات کے بارے میں معلومات بِلا معاوضہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کرایہ پرہرقسم کی سواری( ٹرانسپورٹ) قابلِ دید مقامات کی سیر کی لئے بااعتماد راہبر (گائیڈز) ،پہاڑوں پر ٹریکنگ اور وادی کے ہر مقام پر ہوٹلوں میں قیام و طعام کابندوبست اور مختلف ٹور پیکجز(فرد یا گروپس) کی لئے مناسب معاوضہ پر خدمات سرانجام دیتا ہے۔
منگورہ کی مشہور شخصیات میں چاچا کریم بخش مرحوم ،کامران خان اور ملک بیرم خان (سابق چیئرمین بلدیہ منگورہ) کے اسمائے گرامی زیادہ نمایاں ہیں۔
مینگورہ ، وادئ سوات کا خوب صورت اور بارونق شہر ہے۔ یہ چھوٹا سا گنجان آباد شہر قدیم و جدید تہذیب کا حسین امتزاج ہے۔ اس کی بعض قدیم آبادیوں کے دروازوں اور چوبی ستونوں پر گندھارا تہذیب کے نمائندہ خوب صورت روایتی نقش و نگار اگر سوات کے صدیوں قدیم طرز بودوباش کی یاد دلاتے ہیں، تو شہر کے بازاروں میں زندگی تمام تر جدید سہولتوں کے جلو میں مسکراتی نظر آتی ہے۔
(فضل ربی راہیؔ کی کتاب “سوات سیاحوں کی جنت” سے انتخاب)