شہنیلا

مارننگ پوسٹ :بلوچستان عرصہ دراز سے مسائل کے نرغے میں ہے۔ یہاں مذہبی، قومی، قوم پرست اور ڈکٹیٹر کی منظورِ نظر سیاسی پارٹیاں اقتدار میں رہی ہیں اور بلوچستان کے سیاہ و سفید کی مالک رہی ہیں۔ ہر سال بلوچستان کی ترقی، امن، روزگار، تعلیم اور صحت کیلےُ اربوں روپے کا بجٹ منظور کیا جاتا ہے، اور بجٹ تقاریر میں بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے جیسی خوشنما باتوں سے عوام کا دل بھلایا جاتا ہے، لیکن جب یہ بجٹ ترقی، تعلیم، امن، روزگار اور صحت کی مد میں خرچ کرنے کا وقت آتا ہے، تو اس وقت بندر بانٹ کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دس سال کے بجٹ کاحساب اٹھالیں صحت، تعلیم، روزگار اور امن کیلئے کتنی رقم مختص کی گئی اور پھر ان سب شعبوں کا ایک جائزہ لیں۔ مثلاً تعلیم کے شعبے پر اگر نظر دوڑائی جائے جس پر ایمرجنسی بھی نافذ ہے، اب تک ایک جائزے کے مطابق سترہ لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔  اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ان سب کو مہاجرین نے سکول سے باہر رکھا ہے؟ صحت کا تو یہ عالم ہے کہ ضلع شیرانی میں ابھی تک ڈاکٹر تو دور کی بات، ایک مڈوائف تک نہیں۔ بات یہاں تک محدود نہیں۔ بلوچستان کے دوردراز اضلاع کو بھی انھیں مسائل کا سامنا ہے۔ اب گھوم پھر کر بات واپس اس نکتہ پر آجاتی ہے کہ مہاجر نے زعما ُ کو صحت کا بجٹ اپنی صحت پر لگانے کے بجاےُ عوام کی صحت پر لگانے سے روکا ہے. امن و امان کا اگر جائزہ لیا جاےُ، تو جیلوں اور حوالات میں مہاجرین کے بجاےُ آپ کو مقامی بے روزگار نوجوان زیادہ ملیں گے۔ اس کی بنیادی وجہ نوکریوں کا بیوروکریٹس اور زعما نے سیکرٹریٹ میں منڈی لگانا ہے۔ غریب نوجوانوں کو منڈی کے مال پر دسترس نہیں۔ اس لیے وہ جرائم کی طرف مائل ھوجاتے ہیں اور مجرم بن جاتے ہیں۔ جب مجرم بن کر قانون کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں  تو  قانون  کے رکھوالے  انصاف دینے  کے بجاےُ ان سے  الٹا چاےُ پانی کے نام پر لوٹتے ہیں.اس مختصر سے جائزے کے بعد کیا یہ درست نہیں کہ "مہاجرین  مسائل کی جڑ نہیں بلکہ  کرپٹ نظام  اور مفاد پرست سیاستدان اور زعماُ ہی  اصل  مسائل کی جڑ ہیں۔” بس عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا گیا ہے.