ایڈووکیٹ نصیر اللہ
قوموں کی ترقی کا راز سیاسی طریقے سے مسئلوں کو حل کرنے میں پنہاں ہوتا ہے۔ سیاست بچوں کا کھیل نہیں۔ ایک غلط سیاسی فیصلہ ٹھیک ہونے کے لیے دہائیاں لگتی ہیں۔ نیز غلط فیصلوں کی وجہ سے عوامی مصائب مزید پیچیدگی پیدا کردیتی ہے۔ یہاں کس طور پر مسئلے حل کیے جاتے ہیں؟ اس کا انداز نرالا اور اچھوتا ہے۔اس بابت کس سے پوچھا جائے، نیز کون ہے جو جواب دے سکتا ہے؟ ذیل کی سطور میں اس کا حل اور جواز درج کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔
کیا وجہ ہے کہ کوئی بھی ملک کے دیرینہ مسائل کی نشان دہی تو کرسکتا ہے، لیکن اس کا دیرپا حل فراہم نہیں کرسکتا۔ اس وجہ سے ملکی مسائل وہیں کہ وہیں پڑے رہتے ہیں اور نئے مسائل جنم لیتے ہیں۔ نئے مسائل اس لیے جنم لیتے ہیں کہ پہلے سے موجود مسئلے کے لیے حل فراہم نہیں ہوتا، جس وقت ایک ایک کرکے ایک ایک مسئلے کاحل فراہم نہیں کیا جاتا، اس وقت تک کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، بلکہ مزید پیچیدگی پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ مذہبی اور سیاسی حکمرانوں کو پاکستان کے مسائل کا ادراک کرنا ہوگا اور اس کے حل کے متعلق واضح مؤقف اختیار کرنا ہوگا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ مملکت پاکستان کے عوام کا بنیادی مسئلہ سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے ساتھ جذباتی وابستگی ہے۔ مسئلے کی نزاکت کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ شخصیات کو دیکھا جاتا ہے۔ پارٹی کے غلط اور بلاجواز سلوگن کے لیے جوازات بنائے جاتے ہیں۔ پروپیگنڈا مشینری کے آلہئ کار بننے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اور عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے۔
اگر سیاسی بنیادوں پر سوچا جائے، تو شاید کوئی بھی مسئلہ پیچیدہ یا ناممکن نہیں، لیکن مسئلہ کی تشخیص اور بعد ازاں اس کی نزاکت کے پیش نظر اس کے علاج معالجہ میں کوتاہی مرض کو مزید پیچیدہ کردیتی ہے۔ کبھی کبھار مرض، مریض کو موت کے منھ میں دکھیل دیتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے ہمیں سیاسی فہم و ادراک، عقل و شعور سے کام لینا ہوگا۔ بعد ازاں مسئلے یعنی مرض کی نشان ہی کرنا ہوگی۔ اس کے بعد ہی ہم اس کے قابل ہوسکتے ہیں کہ ہم تشخیص کے متعلق کوئی واضح مؤقف اپنا سکیں۔
ملکِ خداداد میں یوں تو ہزاروں بلکہ لاکھوں مسائل ہیں۔ سرِدست ہمارا مسئلہ سیاسی سے زیادہ نظریاتی دہشت گردی، فرقہ واریت اور مذہبی جنونیت کا ہے۔ کوئی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت اس پر زیادہ نہیں سوچتی اور نہ اس کو حل کرنے بارے کوئی واضح مؤقف ہی رکھتی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے بھی وقتاً فوقتاً مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے، جس سے نقصان کا تخمینہ سو گنا ہوگیا ہے۔
قانون اور آئین، مذہب کی تشریح و توضیح کی اجازت دیتے ہیں۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ اپنے مذہبی فرائض بخوشی ادا کرسکنے کے قابل ہوسکے۔ریاست بھی سیاسی و مذہبی فرائض ادا کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ کوئی چاہتا ہے کہ یہ مملکت حقیقی طور پر اسلامی مملکت بن جائے، تو کوئی اس میں خلافت کا نظام لاگو کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف کوئی اس کو سیکولر ملک بنانا چاہتا ہے، اور کوئی اس کو لبرل خطوط پر آگے بڑھا نا چاہتا ہے، جو کہ ایک دوسرے کی بالکل متضاد آرا اور نظریات ہیں۔ جس سے قوم کی ترقی کیا ہونی ہے، الٹا وبال اور جہالت کا دور دورہ چہار سو پھیلا ہوا ہے۔ دونوں متشدد نظریات کے حامل ہیں اور بزور اپنے نظریات دوسروں پر تھوپنا چاہتے ہیں، جو کہ خالصتاً غیرنظریاتی رویے ہیں۔
”آزادی مارچ“ اور ”دھرنا سیاست“ میں جیت کس کی ہوگی، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن مسئلہ زیرِ نظر میں نقصان عوام اور مملکت کا ہو رہا ہے۔ ترقی کی شرح میں مملکت اپاہج ہوچکی ہے۔ ترقی کی گراف لائن تیزی سے کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔رواداری اور بھائی بندی ختم ہو رہی ہے۔ دشمنی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ ریاست پر سے عوام کا اعتماد ختم ہور ہا ہے۔غیر یقینی اور بے چینی کا دور نزدیک ہے۔
اس لحاظ سے مذہبی فرقوں نے لوگوں کی عقلی استعداد کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اور عوام کو سوچ اور عقل کے استعمال سے منع کردیاگیا ہے۔ کوئی ایک بات کہتا ہے اور کوئی دوسری۔ ایک دوسرے کے ساتھ ہر بات میں تضاد پایا جاتا ہے۔ یہ تضاد ایک لحاظ سے قدرتی بھی ہے۔ لیکن ہر فرقہ کے اصول جداگانہ ہیں۔ کوئی فرقہ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ انتہائی زاویہ نگاہ کے فرق نے عوام کو ایک دوسرے سے جدا کرکے رکھ دیا ہے، جو کہ سیاسی اور مذہبی حکمرانوں کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ریاستی بیانیہ اس مد میں صفر سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اگرچہ آئین، قرآن و سنت کو سپریم لا مانتا ہے، تاہم آج تک اس کی تشریح نہیں ہوسکی کہ سنت کیا ہے اور قرآن کا اصل مقصد ریاست میں کیا ہوگا؟ تاکہ اصول جو قرآن پاک میں دیے گئے ان کے ساتھ انصاف کیا جاسکے۔ یوں پھر انصاف کا نظام بھی شکل پا جائے گا۔ یہاں تو کسی بھی نظریے کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا۔ انصاف یہ ہے کہ انصاف ہوتا دکھائی دے۔ یہاں انصاف اور عدل کے پیمانے کچھ اور بنائے گئے ہیں۔ یہاں دوسروں کے نظام در آمد کیے گئے ہیں۔ عوام کے اصل معاشرتی نظام کے حصے بخرے کیے گئے ہیں۔ ان کو پنپنے نہیں دیا جا رہا۔ تمام ملکی ادارے آئینی فریم ورک سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ اس لیے اس وقت مملکتِ خداداد کے لیے نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت سے انکار بے وقوفی ہوگی۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ جب ہندوستا ن ”سونے کی چڑیا“ کے نام سے مشہور تھا۔ اس وقت بھی زمین داری اور مالکانہ قبضے تھے؟ ہر کوئی اپنے حصے کی زمین کاشت کرتا اور اپنے حصے کے غلہ سے دسروں کی مدد کرتا تھا۔دراصل ملکیت کا نظام فرنگیوں کا پیدا کردہ ہے۔ زمین داری، جاگیر داری اور سرمایہ داری فرنگیوں کے فراہم کردہ نظام ہیں۔ مَیں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ہمارے نظام نقائص سے پاک تھے۔ مَیں یہ بھی نہیں کہتا کہ ہمیں جدید تعلیم او ر طرزِ سیاست سے کنارہ کش ہونا چاہیے۔ البتہ اس پر قوم او ر ملت کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا چاہیے۔ اگر کسی کا نظام اختیار کرنا ہے، تو اس کو اس کے تمام ٹولز کے ساتھ ہی اختیار کرنا ہوگا۔ اس میں آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ نہیں چلتا۔ بے شک آپ اسلامی نظام لائیں، لیکن اس کے من و عن اصولوں کو لاگو کریں۔ دنیا میں معاشی حوالہ سے صرف دو ہی نظام پاِئے جاتے ہیں، جس میں ایک سرمایہ داری اور دوسرا اشتراکیت ہے۔اس لیے مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر ”اسلامی معاشی نظام“ کے نام سے کوئی تیسرا نظام موجود ہے، تو اس کی تشریح کی جانے کا فریضہ سر انجام دینا ہوگا۔ مروج جمہوری نظام، سرمایہ دارانہ نظام کا عکاس ہے۔اس کو اسلامی نظام کے ساتھ گڈ مڈ نہیں کیا جاسکتا۔ سرمایہ دار جمہوری نظام میں عدالتی اور حکومتی نظام، اشرافیہ کے تحفظ اور ملکیت کی بنا پر بنایا گیا ہے۔ مروج عدالتی نظام میں دیوانی کیسز کے لیے دیوانہ بننا پڑتا ہے۔غریب اور مزدور کے لیے انصاف تک رسائی جوئے شیر لانے کے مترداف ہے، جس پر الزام لگے۔ سالوں بیت جائیں گے انصاف کا نام و نشان نہ ہوگا۔ مسئلہ وہیں کا وہیں پڑا رہے گا، اور فریقین کا ہزاروں لاکھوں روپے کا خرچہ ہوچکا ہوگا۔آخر میں انصاف بھی نہیں ملے گا۔
ہمیں جدید تعلیم کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب ہمیں جدید مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے جدید تعلیم کے طالب علم اور مدرسہ کے طالب علم کو دو انتہاؤں سے شبیہ دی جاسکتی ہے۔ دونوں میں کسی بھی ایک جگہ موافقت موجودنہیں۔ اس سے کیا ہوا؟ایک طبقہ آخرت پر تکیہ کرکے بیٹھا ہے اور دوسرا دنیا دار ہے جو کہ ملکی معاملات کواپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہے، جس سے تناؤ میں روز بروز اضافہ ہوتا رہتاہے۔ ایک سے آخرت کا مسئلہ حل نہیں ہورہا، اور دوسرے سے دنیا کا۔اس کی وجوہات جو بھی ہوں لیکن سب سے بڑی وجہ خودان کا اپنے اپنے نظام بارے ابہام ہے، جس کو وہ حل کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک طرف اس کے ذمہ دار ان مذہبی راہنما ہیں، تو دوسری طرف ہماری جمہوری روایت پرست حکمران طبقات ہے۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے حکمرانوں کو اس مسئلے پر سوچنا چاہیے اور اس کا عزم کر نا چاہیے کہ کس طرح ان دو انتہاؤ ں کو مین سٹریم میں لایا جائے۔ ان کو جدید تعلیم سے روشناس کرایا جائے۔ایک نئی قومی حکومت بنائی جائے، اور نئے عمرانی معاہدے کی داغ بیل ڈالی جائے۔ مملکت میں پارلیمنٹ اور اداروں کو قانونی طریقے کار کے ذریعے پابند کیا جائے۔ مملکت کے لیے ایک آزاد بیانیہ تشکیل دیا جائے۔حکومت کو مضبوط بنا کر اس کے ضروری مسئلوں کی نشان دہی کرکے اس کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں۔اس سے ہوگا یہ کہ ملک کی ترقی میں جدید تعلیم کے طالب علمو ں کے ساتھ مدرسہ کی تعلیم میں ہم آہنگی پیدا ہو جائے گی، اوردونوں ملک کی ترقی میں اپنا ہاتھ بٹائیں گے۔ ان کو وقت بے وقت سیاسی مسئلوں میں مداخلت کا موقعہ نہیں مل پائے گا۔ مطلب ا ن کو کوئی بھی سیاست میں استعمال نہیں کرسکے گا۔
آزادی دھرنا، مذہبی نہیں سیاسی مسئلہ ہے!
