ایچ ایم کالامی
محترم عنایت اللہ فیضی صاحب کا کالم دل پشوری پڑھ کر مزا آیا۔ اس کالم میں انہوں نے پشاور بی آر ٹی میں سفر کے دوران میں اپنے احساسات قلمبند کیے ہیں۔ لکھا ہے کہ بی آر ٹی میں سفر کرکے وہ دل پشوری ہوگئے (خیبر پختونخوا میں جب خوشی سے دل اچھل پڑتا ہے، تو اسے دل پشوری ہونا کہلاتے ہیں۔
اب چوں کہ راقم بھی ہائی ایس بکسے میں سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے کالام کی طرف محوِ سفر ہے اور وادیِ بحرین سے آگے کالام سڑک پر اپنے ہچکولے کھاتے احساسات کو زیرِ قلم لانے کی جتن کررہا ہے، تویقین مانیے، کالام سڑک پر سفر کرتے ہوئے راقم کی کیفیت ’’دل مرادی‘‘ ہوگئی ہے۔ نوٹ فرمائیں کہ اہلِ سوات کا جب کلیجہ منھ کو آتا ہے، تو ان کی کیفیت ’’دل مرادی‘‘ ہوجاتی ہے۔
سوات کوہستان میں اصطلاح ’’دل مرادی‘‘ اس وجہ سے چل پڑی ہے کہ ایک وفاقی وزیر موصوف وہ ’’واحد‘‘ سیاست دان ہیں جو عمران خان کے اصل وِژن (سڑکوں اور پلوں سے ملک ترقی نہیں کرتا) پر من و عن عمل پیرا ہیں اور کالام سڑک پر نواز شریف دور حکومت میں شروع کیے گئے 12 عدد پلوں پر کام مبینہ طور پر روکے ہوئے ہیں۔
بارہ عدد پل تو معمولی بات ہے، انہوں نے بقولِ امیرمقام، ’’نوازشریف کا منصوبہ چکدرہ تا کالام اور خوازہ خیلہ تا کالام چار رویہ ایکسپریس وے پر بھی کام رکواکر خان صاحب کے وژن پر چلنے والوں میں اپنا نمایاں مقام پالیا ہے۔‘‘
ویسے جب فیضی صاحب نے بی آر ٹی میں آرام دہ سفر کے مزے لوٹنے کے بعد دل پشوری کرنا چاہی، تو انہوں نے اپنے جرمن دوست کو فون کرکے بی آرٹی کی فضیلتیں بیان کیں اور ساتھ بی آر ٹی میں پشاور گھومنے کی دعوت بھی دی۔
کالام سڑک پر خجل خوار ہونے کے بعد جب اپنی ’’دل مرادی‘‘ ہوگئی، تو مَیں نے بھی اپنے انڈس کوہستان کے دوبیر والے ایک دوست کو فون ملاکر ان کو سوات کوہستان کے علاقوں میں گاڑی میں بیٹھ کر معدے کی ورزش کے انوکھے تجربے بارے بتایا اور ساتھ دعوت دی کہ آپ کو فور بائی فور میں بٹھاکر بحرین سے کالام تک ڈرائیو پر بھی لے جاؤں گا۔
اپنے اُس کالم میں فیضی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’کسی بھی ملک کی ترقی کو اس کی سڑکوں اور سفری سہولیات سے جانچا جاسکتا ہے۔‘‘ کافی غور و خوص کے بعد مجھے یہ مشاہدہ ہوا کہ وطنِ عزیز کے سیاحتی مقامات کی خوب صورتی کا اندازہ اس کی سڑکوں سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے ۔ علاقے جتنے خوب صورت ہوں گے، اتنے ہی بدنما اور خستہ حال سڑکیں ہوں گی۔ ازروئے مثال…… سوات کے ماتھے کے جھومر مہوڈنڈ کی خوفناک سڑک پر رینگتے ہوئے سیاحوں کی گاڑیوں کی لمبی قطاریں بتارہی ہوتی ہیں کہ آگے جھیل بہت خوب صورت ہے۔ بس جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔
اسی طرح فیضی صاحب کے آبائی ضلع چترال کی ایون اور بمبوریت گاؤں کی سڑکیں یہاں کی خوب صورت وادیوں کے دامن پر بدنما داغ ہیں۔ اور ہماری حکومت کا ماننا ہے کہ ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں، فوربائی فور سرف گاڑی مٹائے ساری تھکان!‘‘
قارئین، موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کو لے چلتے ہیں انڈس کوہستان کی خوب صورت وادی دوبیر…… جہاں سڑکیں بیک وقت آمد و رفت اور آبپاشی کے کام آتی ہیں۔ بیچ سڑک میں سے دریاؤں کا اضافی پانی گزر جاتا ہے۔ ٹویوٹا جیپ دو ٹائروں کے لیے مخصوص جگہوں پر ناپ تول کے حساب سے چلتی ہیں۔ باقی کے بچے ہوئے حصے سے نہریں گزرتی ہیں۔ آس پاس کے کسان سڑکوں میں راستہ بنا کر ان نہروں سے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔
بی آر ٹی (بس ریپڈ ٹرانزٹ) اور کے آر جے (کھنڈر پر رینگتی جیپ) کا موازنہ کرنے اور بہ نظرِ عمیق تقابلی جائزے کے باوجود بھی ہمیں عمران خان صاحب کی اس منطق کو سمجھنا قدرے مشکل پڑ رہا ہے کہ ’’ترقی سڑکوں اور پلوں سے نہیں آتی بلکہ تعلیم اور صحت سے آتی ہے۔‘‘ اگر ایسا ہے، تو نواز شریف سے کیوں سبق نہ سیکھا؟ پشاور میں نئی یونیورسٹیوں اور اسپتالوں کی بجائے بی آر ٹی کی بسیں فراٹے بھر رہی ہیں؟ اگر اب اصول بدل گیا ہے اور ترقی تعلیم اور صحت سے نہیں بلکہ سڑکوں اور پلوں سے آتی ہے، تو پھر سوات کوہستان میں سڑکوں اور پلوں کی تعمیر سے کیوں جھجھک محسوس ہورہی ہے؟ حالاں کہ وہاں پر تو صحت اور تعلیم کا نام و نشان تک بھی موجود نہیں؟اب حکومت کو دو میں سے کوئی ایک فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر ترقی سڑکوں اور پلوں سے ممکن ہے، تو پھر سوات کوہستان کے تمام سیاحتی علاقوں میں کشادہ سڑکوں اور پلوں کے جال بچھانا پڑے گا اور اگر ایسا نہیں، بلکہ تعلیم اور صحت سے ممکن ہے، تو پھر کالام، بحرین اور اورمٹلتان میں لڑکے لڑکیوں کے لیے ڈگری کالج اور یونیورسٹیاں بنانا ہوں گی۔ ساتھ ساتھ ان علاقوں میں کیٹیگری اے اور بی اسپتالوں کو بھی کھولنا پڑے گا۔ کیوں کہ یہ بھی باقی ماندہ ملک کا حصہ ہے۔ ان کی پس ماندگی دیکھ کر عالمی سیاح پورے ملک کو اس نظر سے دیکھتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت دونوں میں سے کون سے آپشن کو لے کر ہماری دل پشوری کرتی ہے یا پھر دونوں ہی کو مسترد کرکے پھر سے ہماری دل مرادی کرتی ہے؟