سلطان خان
بچپن بڑی بے فکری کا زمانہ ہوتا ہے ۔آج سے تیس چالیس سال پہلے بچپن کا جو زمانہ تھا کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی ہر بچہ مغل شہزادے کی طرح ہر الجھن سے آزاد تھا ۔سکول تو جانا ہوتا تھا لیکن درسی کتابوں میں بھی اتنی الجھن نہ تھی۔ ہوم ورک کرنے کا تصور نہیں تھا نہ آج کی طرح مذہبی مدرسہ کی طرح دوتین گھنٹے روزانہ جانے کی پابندی تھی بلکہ گلی گلی مذہبی مدرسے کا وجود بھی نہ تھا۔ صبح ہوتے ہی دس پندرہ منٹ محلے کی کسی بوڑھی خاتون سے سیپارے میںکچھ پڑھنے کے بعد گھر آکر ہلکا سا بستہ اٹھا کر سکول کی راہ چل پڑتے۔ چھٹی کے بعد باقی آزادی ہی آزادی تھی۔ نہ کھیلوں کا شمار تھا، دن کے کھیل اور تھے اور رات کے اور، خاندان کے بزرگوں سے اگر ایک طرف کوہ قاف کی کہانیاں سننے کو ملتیں تو دوسری طرف گاؤں کے بزرگوں کے متعلق ان کے گزرتے بچپنوں اور جوانی کے متعلق قصے سننے کو ملتے۔گاؤں میں دو تین قصہ گو بزرگ ایسے بھی ہوتے ڈائجسٹوں کی طرح سنسنی خیز کہانیاں قسط وار بھی جن سے سننے کو ملتیں اگرچہ انہوں نے گلستان بوستان سے زیادہ نہیں پڑے تھے۔ یہ گلستان بوستان کیا تھے کیا نہیں، ان کے بارے میں ہم نے اب تک جاننے کی کوشش نہیں کی ہے۔ سردیوں کے موسم میں ہم محلے کے ساتھی آگ جلا کر رات کو ایک دوسرے کو قصے اور لطیفے بھی سناتے۔ دن کو ٹولیوں کی شکل میں گاؤںکے قبرستان بیریاں چننے جا تے اور بیریاں چنتے وقت یہ گانا ضرور گاتے ’’روڑہ بندے بندے چہ اپیرو نہ جانانہ بیرے لہ رازا چہ ازانگونہ‘‘، ادھر ریڈیو پر یہ نغمہ سنتے کہ ’’کرکنڑی ٹولہ اوومہ دجاناں دیدن لہ زمہ‘‘ ادھر ہم بیس پچیس مقامی لڑکے قریبی پہاڑیوں میں ’’کرکنڑی‘‘ چننے لگتے، زقوم ڈر ڈر کے کھاتے کیونکہ یہ خیال دل میں آتاکہ یہ جہنمیوں کی غذاء ہے۔ احمدخان، فضل ربی اور بعد میں میراوس کے چرچے لگنے لگے، سات گاؤ ں پار بھی کسی شادی میں ان کے آنے کی بابت سنتے تو رات کو ہم ساتھیوں کے پاؤں اپنے گاؤں میں نہیں ٹکتے تھے۔گرمی کی چھٹیاں تو دن رات نہر میں گزارتے۔ انسانی زندگی جی بھر کے لطف لینے کا نام تھا لہذا یہ نہانے کا وقت بھی بے شمار کھیل کھیلنے میں گزرتا تھا۔ نہر میں نہاتے نہاتے کئی کھیل کھیلتے اور کئی نہر کے باہر۔ دن لمبے ہوتے اور تعلیم میں سبقت لینے کا کسی کو کوئی خیال بھی نہیں چھوتا تھا۔ زندگی کتاب سے جتنی دور تھی اتنی حسین تھی۔ وقت نکال کرہم ساتھی لڑکے اپنے گاؤں ٹکر اور پاتے خورد کے درمیاں ایک قدرتی ڈرین میں مچھلیاں پکڑنے جاتے تھے۔ جیسے جیسے عمر میںبڑھتے گئے زندگی کے مشاغل بھی بدلتے گئے۔کھیل بھی بدلتے گئے۔ عید کے دن قریبی زیارت مدے باباکے بجائے اب مردان اور تخت بھائی کے میلوں کے سرکسوں میں جانا پڑتا تھا اور جھولوں کا سواد بھی کچھ اور لگتا۔ رفتہ رفتہ سینما فلمیں دیکھنے جانے لگے۔ قصے کہانیاں سننے اور سنانے کی جگہ ٹی وی نے لے لی اور زندگی میں کتاب بھی قریب آنے لگی۔کئی لوگ بلوغت کے ساتھ سنبھل گئے اور کئی دوست نسوار سے سگریٹ، سگریٹ سے چرس اور چرس سے بڑھ کر ہیروئن کی زلفوں کے اسیر ہو کر زندگی کے اس موڑ پرکتاب سے جڑنے کی بجائے زندگی کے شجرکے مقصد سے پیوستہ نہ رہ سکے اور خزان کے سوکھے پتوں کی طرح بکھر گئے۔کئی زمیندا ر کے بیٹے ہو کر زمیندار رہ گئے،کئی استاد بن گئے،کئی سپاہی اور کئی فوجی اورکئی ڈرائیور۔ ہر کوئی زندگی میں آگے جانا چاہتا تھا لیکن زندگی کے کس شعبے میں جانا ہے اور کیسے آگے جانا ہے،کسی کے بھی ذہن میں اس خیال کا آنا منع تھاکیونکہ زندگی بے ساختہ چلتی اور اس کھیل کا نام ہم نے قسمت رکھا تھا۔ حجرے جو اس زمانے میں وقت گزاری کے مسکن تھے، زندگی میں جب شعور کا احساس ہوا تو حجرے کا فنکشن بھی کچھ اور نظر آیا یعنی زندگی کے مختلف ادوار میں ایک ہی چیز مختلف نظر آتی ہے۔ اس لئے اب حجرے کے لئے ہماری زندگی کا پرتو بھی بدل گیا۔سکول میں ہم نے کیا سیکھا اور کیا نہیں، ہر انسان کے ظرف ظرف کی بات ہے، اس وقت ہم یہ ضرور پڑھتے تھے کہ ’’ہغہ دے پاڑو راغے ۔۔اوس بہ گڈوی ماران‘‘ سکول میں تو ہم نے پاڑو یعنی سپیرا تو نہ دیکھا اور نہ سانپ البتہ جب تخت بھائی کے میلے جانے کے قابل ہوگئے تو ہی کسی مداری کا تماشہ دیکھنے کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے۔ مداری ایک سانپ دکھانے کا بہت چرچا کرتا تھا کہ اب ہم آپ کو ’’منگرے مار‘‘ دکھانے والے ہیں جوکہ ہے تو بہت پتلا اور چھوٹا، ہو ا میں اڑتا ہے مگر اتنا زہریلا ہے کہ اگر انسان کو کاٹ لے تو انسان راکھ ہو جا تا ہے۔ ہر مداری صبح و شام یہ تماشہ دکھاتا رہا لیکن منگرے کوئی بھی دیکھ نہ پاتا۔ جب تماشہ ختم ہونے پر آتا تو مداری پیسوں سے بھری اپنی چادر اٹھاتا اور غریب تماشائی کو چند بے کار قسم کی پوڑیاں علاج برائے ہمہ امراض کے نام دی جاتی تھیں لیکن کسی نے نیب بن کر اس وقت سے لیکر اب تک ان مداریوں سے نہیں پوچھا کہ منگرے مار کہا ں ہے؟ ایساہی ایک مداری نے آکر قوم کے سامنے اپنی پٹاری کھول کر ساری قوم کو جمع کرکے منگرے مار دکھانے کا وعدہ کیا، اس نے اپنے منگرے مار کا نام تبدیلی رکھا۔ ہم تو عمر کے اس حصے میں ہیں کہ مداری کی ہر حرکت اور غرض سے واقف ہوچکے ہیں لیکن جس طرح ہم بچپن میں مداری کی چال سے واقف نہ تھے بس صبح سے لیکر شام تک منگرے مار دیکھنے کے انتظار میں ہی کھڑے رہتے تھے، منگرے تو نہ دیکھ پاتے لیکن مداری پیسوں بھری چادر اٹھاتے اور ہم ہاتھ میں بے کارسی پوڑیاں اٹھاکر خالی جیب گھر کی راہ لیتے۔ آج اسی طرح یہ مداری قوم کے جوانوں کو تو منگرے مار یعنی تبدیلی دکھا نہ سکے البتہ قوم کے بچوں کو لوٹ کر جوانوں کو سات سمندر پار دلفریب خواب دکھا کر اپنے من مانے خوابوں کی بھری چادر اٹھاکر ملک کے کوہ سلیمان پر بمقام اسلام آباد بیٹھ گئے لیکن ہمارے سکول کی کتاب میں حسب دستور وہ نغمہ جوں کا توں موجود ہے۔ اگر اس نغمہ کو تبدیل کرکے جملہ خرابیوں سے آگاہ نہ کیا گیا تو ہماری زندگی میں ہر آنے والاپاڑو جانے والے سے خطرناک ہوگا۔اسی طرح ہم میں سے کوئی زمیندار بنے گا ،کوئی استاد، کوئی سپاہی، کوئی فوجی اور کوئی ڈرائیور بنے گا اور اسی کا نام پھر نصیب اپنا اپنا ہوگا۔