1969ء میں پاکستان کی دیگر ریاستوں کی طرح ریاستِ سوات بھی پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے مدغم کی گئی اور پہلی دفعہ سوات میں ڈپٹی کمشنر اور ضلعی انتظامیہ پر مشتمل دیگر سرکاری اہلِ کاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔
ریاست کا پاکستان میں ادغام کے بعد عام لوگوں کاخیال تھاکہ اب سوات ایک ضلع کے طور پر تیز رفتار ترقی کرکے ایک نئے دور میں داخل ہوگا اور نہ صرف یہاں کے گونا گوں مسائل حل ہوں گے بلکہ عوام کو ریاستی دور سے بھی بڑھ کر امن و امان حاصل ہوگا۔ لیکن ادغام کے بعد یہاں کے مسائل کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئے اور اہلِ سوات پر ایسا غیر منصفانہ نظام مسلط کر دیا گیا جس میں عوامی زندگی پہلے سے حاصل شدہ خوشیوں سے بھی محروم ہو گئی۔
ریاستی دور میں شخصی نظامِ حکومت کی معروف خرابیوں کے باوجود لوگ سوات کو سواتیوں کے لئے سمجھتے تھے اور خود کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کے شہری سمجھتے تھے کیونکہ حکومتی مشینری کے تمام عہدیدار اور اہل کار شناسا چہرے تھے۔ ان کا برتاؤ لوگوں سے شریفانہ اور اپنائیت کا مظہر تھا لیکن ریاست کے صوبہ میں ادغام کے بعد لوگوں کو زمین و آسمان بدلتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ گویاانہیں کسی نوآبادیاتی نظام سے واسطہ پڑگیا ہو اوروہ اپنے علاقہ میں اپنے آپ کو اجنبی سمجھنے لگے ۔کیونکہ انسانیت وعزت کا ناپ تول صرف دولت ہی سے ہے۔ دراصل سوات کے لوگوں کے لئے یہ ایک قسم کا جنریش گیپ ہے کیونکہ سوات کے لوگ خود بھی سیدھے سادے تھے اور پچاس سال سے ان کا واسطہ بھی ایک سیدھے سادے اور مانوس نظام سے چلا آرہا تھا لیکن پیشگی طور پر ان کی ذہنی تیاری کے بغیر اچانک انہیں ایک ایسے نظام سے دوچار ہونا پڑا جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ قدم قدم پر ان کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچتی ہے اور ان کے مسائل حل ہونے کی بجائے روز بروز پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں ان کی پریشانی ایک قدرتی امر ہے۔
پاکستان میں حقیقی معنوں میں اگر جمہوریت ہوتی ، دیانتدار، مُحّبِ وطن اور قومی خدمت کے جذبہ سے سرشار لوگ برسرِاقتدار ہوتے تو پھر یہاں کے عوام اس قدر بے چین نہ ہوتے کیونکہ جمہوریت کے مفہوم میں عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کے مساوی مواقع فراہم کرنا مضمر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے باون سالہ دور میں کوئی ایسی قیادت برسرِاقتدار نہیں آئی، جس کے دل میں پاکستانی عوام کے لئے کسی قسم کی خیر خواہی کا جذبہ ہو بلکہ ہر آنے وال کل، گزرے ہوئے کل سے بدتر ہے۔ ہر دور میں برسرِاقتدار گروہ لوٹ مار میں سابقہ حکومتوں کا ریکارڈ توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ موجودہ نظام سے عوام نالاں ہیں کیونکہ پچاس سال تک ایک سیدھے سادے نظام سے عوام مانوس رہ چکے ہیں۔ لیکن ریاستی دور میں نظام کی سادگی کی طرح عوام بھی سادہ تھے۔ تعلیم کی کمی اور سیاسی شعور کا فقدان تھا۔ ہر سال جو معدودے چند افراد تعلیم سے فارغ ہو جاتے، والئی سوات انہیں کسی نہ کسی محکمہ میں کھپا دیتے تھے اور بیروزگاری کا کوئی مسئلہ درپیش نہ تھا۔ تمام ملازمتیں سواتیوں کے لئے مخصوص تھیں اور ریاست کی خالی آسامیاں ان کے لئے کفالت کرتی تھیں لیکن ریاست کے صوبے میں ادغام کو اکتیس سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کی تعداد کہیں بڑھ گئی ہے اور انہیں روزگار نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ تعلیم اور سیاسی آزادی کی وجہ سے عوام کا سیاسی شعور بیدار ہو چکا ہے۔ نوجوان سیاسی سرگرمیوںمیں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ زندہ باد، مُردہ
باد کے نعروں سے فضا گونجتی رہتی ہے۔ آزادئ تقریر اور جلسے جلوسوں سے لوگ لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں والئی سوات جیسا ریاستی اُمور کا ماہر حکمران اگر ہوتا تب بھی اس کے لئے ایک ماہ تک نظامِ ریاست چلانا ممکن نہ ہوتا۔ ملاکنڈ ڈویژن بہر حال صوبہ سرحد کا ایک حصہ ہے۔ پورے ملک میں تعمیری انقلاب کے بغیر یہاں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن کے لوگوں کو اپنے آپ کو موجودہ نظام سے ایڈجسٹ کرنا ہوگا اور دوسرے پاکستانی بھائیوں کے کندھوں سے کندھا ملا کر تعمیری انقلاب کے لئے اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو کام میں لانا ہوگا۔
زمانہ آگے کی طرف بڑھتا ہے پیچھے کی طرف سفر کرنا مشکل ہوتا ہے مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمیں یہ فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھیڑنا ہوگا۔ ورنہ ہم مکافاتِ عمل سے ہرگز بچ نہیں سکیں گے۔
(فضل ربی راہیؔ کی کتاب “ریاست سوات، تاریخ کا ایک ورق” سے انتخاب)