فضل خالق
اگلی صبح ہم نے ’’وائس آف امریکہ ‘‘ (وی اُو اے) کے دفتراور سٹوڈیو جانا تھا جس کے لیے ہمیں پہلے سے بتا دیا گیا تھا۔ صبح ساڑھے نو بجے ہوٹل ہی سے بس ہمیں سیدھا ’’وی او اے‘‘ کے آفس لے جائے گی۔ اس لیے ہم جب مقرر ہ وقت پر ہوٹل لابی میں جمع ہوئے، تو بس باہر کھڑی تھی۔ اس لیے ہم بس میں بیٹھ گئے اور واشنگٹن کے ’’330 اینڈیپنڈینس اویونیو‘‘ میں واقع ’’وی اُو اے‘‘ آفس کی طرف روانہ ہوئے۔ امریکہ کی سڑکیں تو ویسے ہی صاف ستھری اور انتہائی سلیقہ سے بنائی گئی ہیں، تاہم ایک سپر پاؤر اور ترقی یافتہ ملک کے دارالخلافہ کی وجہ سے واشنگٹن کی سڑکیں انتہائی صاف ستھری، کشادہ اور خوبصورت ہیں۔ ’’وی اُو اے‘‘ کا آفس ہمارے ہوٹل سے زیادہ دور نہیں تھا۔ اس لیے ہم جلد ہی وہاں پہنچے۔ جیسا کہ ہمیں ہدایت تھی کہ آفس کے اندر کیمرے وغیرہ نہیں لے جاسکتے، اس لیے ہم نے یہ چیزیں بس میں ہی چھوڑدیں، اور سیکورٹی سکینرز اور چھان بین کے بعد ہم اندر داخل ہوئے۔ استقبالیہ پر ’’وی اُو اے‘‘ اردو سروس کی چیف سٹاف تابندہ نعیم صاحبہ ہمارے پاس آئیں اور ہمیں اندر لے گئیں۔ ہمیں ایک کونے میں جمع کرکے بریفنگ دی گئی جس کا خلاصا یہ تھا کہ ’’وی اُو اے‘‘ کی ایڈیٹوریل پالیسی آزاد ہے۔ وہ خالص صحافتی اصولوں کو ہی فالو کرتی ہے۔ خیبر پختون خوا سے آئے ہوئے چند دوستوں نے فیصلہ کیا کہ ’’پشتو سروس‘‘ والے سیکشن جائیں۔ اس لیے ہم وہاں گئے، تو سارا عملہ ایک ہی میز پر موجو دتھا جو کسی اہم میٹنگ کے لیے جمع تھا۔ وہ ہم سے جلدی جلدی ملے، مگر میٹنگ کی وجہ سے ہماری ان سے تفصیلاً بات چیت نہ ہوسکی۔ اس لیے میں نے ان کوایک دو کتابیں دیں، جو میں سوات سے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ ان میں ایک کتاب تبسم مجید صاحبہ کی تھی، جو سوات کے مخدوش حالات پر اس کی ایم فل کی ریسرچ پر مبنی ہے۔ دوسری کتاب میری تھی جو میں نے سوات کے آثارِ قدیمہ اور ثقافتی تہذیبی ورثہ پر لکھی گئی ہے۔ ادارہ ’’وی اُو اے‘‘ کی بنیاد 1942ء کو رکھی گئی ہے، جو ریڈیو، ٹی وی اور انٹرنیٹ خبروں کو دنیا کی چالیس زبانوں میں نشر کرتا ہے۔ اس کی عمارت دیدہ زیب ہے، جہاں عام عوام بھی آسکتے ہیں۔ اس کی دیواروں پر خوبصورت پیٹنٹنگز بنائی گئی ہیں جو آنے والے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں۔ جب ہماری بریفنگ ختم ہوئی، تو چند دوستوں نے تو اپنی سی ویز بھی جمع کرادیں۔ وی او اے آفس میں کچھ وقت گزارنے کے بعد ہم باہر آئے اور بس میں بیٹھ کر ’’آئی سی ایف جے‘‘ کے آفس گئے، جہاں لنچ کھانے کے بعد مانیٹرنگ اور ایوالویشن پر سیشن تھا۔ اس سیشن کے بعد ہم آئی سی ایف جے کے وائس پریزیڈنٹ پٹرک بٹلر سے ملے جن کو تمام فیلوز نے اپنے ساتھ لائے گئے سوینیرز بھی دیے۔ ان کے ساتھ ہم نے گروپ فوٹو بھی بنایا۔ گروپ فوٹو کے بعد ہم ایک بار پھر بس میں بیٹھ گئے اور ’’نیوزیم‘‘ کی طرف روانہ ہوئے۔
’’نیوزیم‘‘ واشنگٹن ڈسی میں دنیائے صحافت کا ایک بہت بڑا میوزیم ہے جو سات منزل، پندرہ گیلریوں اور پندرہ تھیٹروں پر مشتمل عمارت ہے۔ اس میں ’’نائن الیون‘‘ کے واقعہ پر الگ گیلری ہے جب کہ دنیا میں دہشت گردی کے حوالے سے الگ اور برلن وال کے لیے الگ گیلری مختص ہے، جہاں اصلی برلن وال کا کچھ حصہ بھی رکھا گیا ہے۔ یہاں ایک بڑا حصہ پلٹائزر فوٹوگرافی ایوارڈ کی ہر سال کی تصویروں کا بھی ہے۔ یہاں کی فرنٹ گیلری میں روزانہ 80 بین الاقوامی اخبارات کے ’’فرنٹ پیجز‘‘ لگائے جاتے ہیں۔ یہاں پر پریس فریڈم ڈے اور خبروں کی تاریخ کے لیے بھی الگ حصے ہیں۔ یہاں سے نکل کر ہم نے نیوزیم کے ساتھ تصویریں بنائیں اورفیصلہ کیا کہ ’’سمت سونین میوزیمز‘‘ میں سے چند کی سیر کریں۔ سمت سونین میوزیمز جو امریکہ میں سمت سونین انسٹی ٹیوشن کا حصہ ہیں، ان کی کل تعداد اُنیس بنتی ہے جن میں سترہ واشنگٹن ڈی سی میں ہیں۔ ان سترہ میں سے گیارہ تو نیشنل مال میں بنائے گئے ہیں۔ اس لیے سیاح جب ’’کپیٹول ہل‘‘ دیکھنے آتے ہیں، تو وہ ایک ساتھ ہی گیار ہ بہترین عجائب گھروں کی سیر کرسکتے ہیں۔ اس لیے ہم سڑک پار کر کے پہلے تو نیشنل گیلری آف آرٹ گئے، جہاں دنیا بھر کے بہترین آرٹ کے فن پارے رکھے گئے ہیں جن میں پینٹنگز، ڈرائنگز، تصاویر، مجسمے اور دیگر چیزیں شامل ہیں، یہاں داخلہ مفت ہے جہاں فن اور فن پاروں سے لگاؤ رکھنے والے لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔آنے والے لوگ ہر فن پارے، چاہے وہ مجمسہ ہو یا پینٹنگ، کا بغور مطالعہ کرتے تھے۔ بالکل اس طرح جیسے وہ اسے کھوج رہے ہوں، وہ اس کے ہر پہلو کا مطالعہ کرتے اور تب ہی چھوڑتے جب ان کی اندرونی کیفیات اور احساسات کی پیاس بجھ جاتی۔ یہاں کے لوگوں میں فن اور فن پاروں سے لگاؤ کی یہ حالت دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ ایک ہماری حکومت اور عوام ہیں کہ فن، ثقافت اور تہذیبی ورثوں کے دشمن ہیں۔ ہمارے سوات کی مثا ل ہی لیجیے، جہاں ہر جگہ گندھارا آرٹ کے فن پارے بکھرے پڑے ہیں، مگر اسے یا تو تباہ کیا جا رہا ہے اور یا سمگلر حکومتی کارندو ں سے مل کر باہر ملکوں میں انہیں سمگل کر رہے ہیں۔
اسی سوچ میں کہ ہمارے سوات کے تاریخی ورثہ کا کیا بنے گا؟ میں گیٹ سے باہر آیا اور اپنے ساتھیوں کا انتظار کرنے لگا۔ اس کے بعد ہم ’’نیشنل ائر اینڈ سپیس‘‘ میوزیم گئے، جہاں ہوائی جہازوں، راکٹوں اور خلا میں استعمال ہونے والی ہزاروں دوسری چیزیں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ ویسے تو یہاں ہر چیز دیکھنے لائق ہے، مگر سب سے اہم چیز جو یہاں نمائش کے لیے رکھی گئی ہے، وہ رائٹ برادران (ویلبر اور اوروائیل رائٹ) کا بنایا گیا وہ جہازہے جس پر انہوں نے 12 دسمبر 1903ء کو 120 فٹ اونچی تاریخ کی پہلی اُڑان بھری تھی جو 12 سکینڈ پر محیط تھی۔ یہی وہ پرواز تھی جس نے دنیا میں ہلچل مچائی اور ہوائی دورکی بنیاد رکھی گئی تھی۔ رائٹ برداران نے اس کے فوراً بعد اسی جہاز سے 852 فٹ اونچی اڑان بھری تھی جو تقریباً ایک گھنٹا پر محیط تھی۔ یہیں سے خلائی پرواز وں، ہوائی جہاز کی انجینئرنگ کی بنیا د رکھی گئی۔ اس میوزیم میں دوسری اہم چیز چاند سے لایا گیا چھوٹا سا پتھر ہے جسے لوگ چو سکتے ہیں۔ ہم نے یہاں کافی وقت گزارا اور جب باہر نکلے، تو کافی تھکے ہوئے تھے۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ سیدھا ہوٹل چلتے ہیں۔ اس خاطر ہم قریبی سٹاپ سے بس میں بیٹھ گئے اور ہوٹل گئے۔
چوں کہ دوپہر کے بعد ہم فارغ تھے، تو چند دوستوں نے فیصلہ کیا کہ قریبی واشنگٹن ہاربر کی سیر کی جائے۔ واشنگٹن ہاربر ہمارے ہوٹل سے تقریباً بیس منٹ کی پیدل مسافت پر سیر سپاٹے کی دلکش جگہ ہے جو ’’پو ٹومک دیا‘‘ کے کنارے بنائی گئی ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں مہمان آتے ہیں۔ اس لیے یہاں ریسٹورنٹ اور تفریح کے کئی مقامات ہیں ۔ تاہم ’’پوٹو مک دریا‘‘ پر کشتی رانی کا اپنا ہی مزہ ہے جس میں مختلف قسم کے کروز اور کایاک شامل ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ کایاک پر اس دریا کا مزہ لیا جائے۔ کایا ک اصل میں پلاسٹک سے بنی پتلی کشتی ہوتی ہے جو ایک، دو یا چار بندوں کے لیے ہوتی ہے جسے چپو کی مدد سے چلایا جاتا ہے۔ ہم نے کبھی کایاک نہیں چلائی تھی، اس لیے میں تھوڑا گھبرا رہا تھا، مگر جب ہم نے ٹکٹ لیے اور لائف جیکٹ کے ساتھ ہم کایاک میں سوار ہوئے، تو گھبراہٹ خود بخود ختم ہوئی۔ میں اور عبدالسلام ایک کایاک میں سوار ہوئے اور قیصر اور کامران دوسری میں۔ پہلے تو ہم چپو چلاتے وقت غلطی کرتے رہے مگر تھوڑی دیر بعد سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ کایاکنگ دراصل ایڈونچرس اور خطرناک کھیل ہے، تاہم اس میں مزہ بہت ہے۔ جب پانی کی لہریں طاقتور ہوتی ہیں، تو پھر خطرے کا احساس ہوتا ہے۔ ہم نے اس موقع پر کایاکنگ سے لطف اٹھایا۔ ٹائم پورا ہوتے ہی کشتیاں واپس دیں اور واپس ہوٹل کی طرف آئے۔ جب ہم نے اپنے تجربات دوسرے دوستوں کو بتائے، تو انہوں نے یک دم گلہ کیا کہ ہمیں کیوں نہ لے کر گئے تھے۔
(جاری ہے)
سوئے امریکہ (وی اُو اے اور کایاکنگ)
