پشاور:خیبر پختونخوا حکومت نے فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے طلاق سے متعلق مسلم فیملی لا آرڈیننس1961ء کا ترمیمی مسودہ تیار کر لیا جس کے مطابق مذاق،غصہ، نشہ ، پاگل پن اور جبری طور پر دی جانے والی طلاق غیر موثر ہوگی جبکہ بے اولاد بیوہ کو شوہر کی وراثت سے ایک چوتھائی ادائیگی کی جائے گی قانونی مسودے کو آج صوبائی اسمبلی اجلا س کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے جس کو باقاعدہ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا لاہورہائیکورٹ راولپنڈی بنچ کا اہل تشیع سے تعلق رکھنے والی بیوہ خاتون کو وراثت میں حصہ دینے کے احکامات کی روشنی میں صوبائی حکومت نے مسلم فیملی لا آرڈیننس1961ء میں ترمیم کرتے ہوئے اہل تشیع کیلئے مزید شقیں شامل کر دی ہیں آرڈیننس کی شق 7کے ذیلی شق 1میںنئی شق(اے) کا اضافہ کہا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مذاق، غصہ، نشہ، پاگل پن اور جبری طور پر طلاق دینا غیر موثر ہوگا اور مذکورہ انداز میں طلاق کی ادائیگی نہیں ہوگی طلاق پر کسی ایک کی جانب سے اختلاف رائے سامنے آنے کے بعد معاملہ عدالت یا اہل تشیع کے مجتہد عالم کے پاس بھیجا جائے گا تاہم مجتہد عالم مذہبی سکالر ، بین الاقوامی سطح پر شہرت یافتہ اہل تشیع کا ڈاکٹر ہوگا آرڈیننس کی شق 4میں نئی ذیلی شق(اے) شامل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر اہل تشیع مرد بے اولاد فوت ہو جائے تو اس کی بیوہ کو شوہر کے جائیداد میں سے ایک چوتھائی حصہ ملے گا اوراگرکسی کی ایک سے زائد بیوہ ہوں تو بیوائوں میں وراثت کا ایک چوتھائی برابر دیا جائے گا تاہم اس مسئلہ پر بھی اگر اختلاف رائے پایا جائے تو عدالت یا فقہ جعفریہ کے مذہبی سکالر یا بین الاقوامی سطح پر شہرت یافتہ ڈاکٹر کے پاس اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے بھیجا جائے گا۔
پختونخوا ،مذاق،غصہ، نشہ ، پاگل پن اور جبری طور پر دی جانے والی طلاق غیر موثر ہوگی
