مختلف قسم کے سماجی اور خانگی مسائل کے علاوہ سوشل میڈیا کے بڑھتے رجحان کی وجہ سے صوبہ بھر میں نفسیاتی اور ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد میں 40سے 45 فیصد تک خطرناک شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے گزشتہ برس دنیا کے بیشترترقی پذیرممالک میںنفسیاتی اور ذہنی امراض کے ساتھ بلڈ پریشر بڑھنے کے واقعات کی روشنی میں موبائل کے استعمال کو بھی بیماریوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ سروے میں انکشاف کیا گیا کہ کینسر جیسے خطرناک امراض کے علاوہ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے ذہنی اور نفسیاتی الجھنیں اور دوسرے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت نے تمام منسلک ممالک کو اقدامات کی تجاویزدی تھیں۔ پاکستان میں تاحال اس سلسلے میں روک تھام کاکوئی تصورنہیںتاہم رواںبرس پشاوراورانٹرنیٹ تک رسائی رکھنے والے اضلاع میںدیگرمسائل کے ساتھ سوشل میڈیا کو بھی ذہنی دبائو کا اہم عنصر تسلیم کیا گیا ہے۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر خالد مفتی کے مطابق زیادہ تر لوگ سوشل میڈیا پر واقعات پر مبنی خبروں سے بھی ذہنی طورپر منتشر ہورہے ہیں۔ اس وقت سوشل میڈیا پرتشدد کے حوالے سے واقعات نوجوانوںکوبڑی تیزی سے متاثرکررہے ہیں۔ اس لئے زیادہ تر وقت کیلئے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے عادی صارفین کو ماہرین نفسیات کی جانب سے ذہنی پریشانیوں سے نجات کے لئے روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ تک سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے مکمل گریز تجویز کر رہے ہیں جبکہ ذہنی دبائو میں کمی کیلئے پیدل چلنا بھی بہترنسخہ بتایاگیاہے۔دوسری طرف سنگین صورتحال کے باوجودسرکاری ہسپتالوں میں ماہرین نفسیات کی آسامیاں تک موجود نہیں حالانکہ موجودہ حالات میں سرکاری ہسپتالوں میں ماہرین نفسیات کی تعیناتی اہم ضرورت ہے۔ صوبہ میں اس حوالہ سے صرف نجی تنظیمیںکام کررہی ہیں جس سے چندسال میںپشاورسمیت صوبہ کے مختلف اضلاع میںڈپریشن اورہائپرٹینشن کے مرض میں مبتلاافرادکی تعدادمیںغیرمعمولی اضافہ ہوجائے گا۔