فیاض ظفر
ملک بھر میں معصوم اور ننھے منے بچوں سے زیادتی کی خبریں تو پاکستان میں عام تھیں ہی لیکن جب سے پاکستان کا نام تبدیل ہو کر ”ریاستِ مدینہ“ پڑچکاہے، تو اس کے بعد سے اس طرح کے واقعات میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوگیا ہے۔ ساہیوال اور قصور کی اس قسم کی خبریں جو میں تفصیل سے نہیں لکھ سکتا، سب کو یاد ہونگیں۔ سوات میں بھی گذشتہ دو ماہ سے اس قسم کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کچھ لوگ حساس اور کچھ حد سے زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ مَیں خود کو مؤخر الذکر افراد میں پاتا ہوں۔ میں تمام انسانوں، جانوروں، درختوں یہاں تک کہ ہر سانس لینے والی شے سے اُنس رکھتا ہوں، لیکن بچوں سے محبت کرکے، ان سے باتیں کرکے اور ان کی میٹھی میٹھی باتیں سننے سے مجھے ذہنی سکون ملتا ہے۔ سوات کے مختلف مقامات پر بچوں کے ساتھ ایسے واقعات رپورٹ کرتے ہوئے مجھے شدید صدمہ پہنچتا ہے۔ اگر آپ کے گھر میں آپ نے کتا، بلی وغیرہ پالی ہو، اور آپ کے گھر میں بچے ہوں، تو آپ دیکھیں گے کہ مذکورہ جانور آپ سے زیادہ اُن بچوں سے پیار کرتے دکھائی دیں گے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، اور جو بچہ شرارت نہ کرے، تو وہ تو بچہ ہی نہ ہوا۔ اس لیے گھر میں موجود بچے فالتو جانوروں کو ضرور چھیڑتے ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ فالتو جانور ان بچوں کی شرارتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ بچوں کو کبھی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرتے۔
قارئین، بچوں کے ساتھ زیادتی کی خبرین سن کر یا نیوز چینلوں پر دیکھ کر مجھے صدمہ پہنچتا ہے۔ کافی دیر کے لیے مَیں اس سوچ میں پڑجاتا ہوں کہ ایک انسان کس طرح پانچ یا دس سال کے بچے پرتشدد کرسکتا ہے اور اس سے بھی بڑا ظلم اُسے قتل کرسکتا ہے۔ ایسی خبرین سن کر اکثر میری راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے۔ دن میں وہ بچے جن کومیں نے دیکھا نہیں صرف سنا ہوا ہوتا ہے، کے بارے میں سوچتا ہوں کہ کوئی جانور بھی پانچ سے دس سالہ بچے کو نقصان نہیں پہنچاتا، اور دوسری طرف ایسے لوگ (جن کے لیے میں انسان اور نہ جانور ہی کا لفظ استعمال کرسکتا ہوں) کس طرح ان پھولوں پر تشدد کرتے ہیں اور پھر ان کا ننھا سا گلہ دبا کر قتل کرتے ہیں؟ ایسے واقعات نے صرف مجھے ہی نہیں بلکہ ہر حساس انسان کو نیم پاگل کردیا ہے۔
اس نوعیت کا سوات میں آخری واقعہ تحصیل بریکوٹ میں ہوا تھا جس کو میں ابھی
بھول تک نہیں پایا۔ اتوار کو جب دفتر میں کام معمول سے کم ہوتا ہے۔ ایک خبر
سنی کہ ”ریاستِ مدینہ“کے صوبہئ سندھ کے ضلع دادو کے علاقہ پاندھی میں والد
نے رشتہ داروں سے مل کر اپنی 9 سالہ بیٹی کو سنگسار کرکے قتل کر دیا۔ نو
سال عمر کا سن کر میں حیران و پریشان رہ گیا۔ نو سال کی عمر کی بچی تو
چوتھی جماعت میں سبق پڑھتی ہے۔ اس عمر کی بچیاں تو کم عمری کی بنا پر الفاظ
کا تلفظ تک ٹھیک ادا نہیں کر سکتیں۔ اس عمر کی بچیوں کے گھر میں جب بچے کی
پیدائش ہوتی ہے، تو وہ گھر والوں سے پوچھتی ہے کہ یہ بچہ کہاں سے آیا؟ اس
عمر کی بچیاں تو گڑیوں سے کھیلتی ہیں۔ اس عمر کی بچیاں تو والدین کی معمولی
ڈانٹ پر کئی کئی گھنٹے روتی ہیں۔ اس عمر کی بچیاں تو کمرے میں والدین کے
بغیر سو نہیں سکتیں اور ان کو اکیلے کمرے میں ڈر لگتا ہے۔ اس عمر کی بچیاں
تو الگ بستر پر نہیں سوتیں، اور والدہ کے ساتھ ایک ہی بستر میں چمٹ کر سوتی
ہیں، تاکہ ان کو احساس ہوکہ ماں پاس ہی ہے۔ اس عمر کی بچیاں تو والدہ کے
بغیر نہا بھی نہیں سکتیں۔
قارئین، ضلع سندھ میں ”کارو کاری“ یا ”بد چلنی“ کا تہمت لگا کر اب تک
سیکڑوں خواتین اور مرد حضرات کو قتل کیا گیا ہے، لیکن یہ سمجھ سے بالاتر ہے
کہ9 سال کی ننھی منی پری ”گل سما“ جس نے ابھی تک سن بلوغت کی دہلیز پار
بھی نہیں کی تھی، اس نے کوں سی ”بدفعلی“ کی۔ اس عمر میں کون سی”بد چلنی“ کی
کہ اس کے والد نے رشتہ داروں کے ساتھ مل کر اس پھول کو پاؤں تلے مسل ڈالا
اور راتوں رات دفنا دیا۔ 9 سالہ گل سما نے تو کاروکاری، بد چلنی کی تہمت
میں تڑپ تڑپ کر معصوم جان دے دی، میڈیا میں خبر چلنے کے بعد ”ریاستِ مدینہ“
کے صوبہ سندھ کی فرشتہ نما پولیس حرکت میں آگئی اور سنگسار کرنے والے
افراد کو گرفتار کرلیا۔ سیشن جج کو قبر کشائی کے لیے بھی درخواست کی۔ اب گل
سما کی قبر کشائی بھی ہوجائے گی۔ پوسٹ مارٹم میں سنگساری بھی ثابت ہو جائے
گی۔ مقدمہ بھی چلے گا۔ ملزمان بھی عدم ثبوت کی بنا پر رہا ہوجائیں گے۔ جس
طرح ساہیوال میں ”ریاستِ مدینہ“ کی پنجاب پولیس نے شادی میں جانے والے ایک
خاندان کو دن دہاڑے مین روڈ پر گولیاں مار کر قتل کیا اور ایک پورے خاندان
کو برباد کردیا۔ بعد میں تمام پولیس والے باعزت بری ہوگئے۔ اب وہ اپنی
سابقہ ”فرض شناسی“ کے ساتھ ڈیوٹی نبھا رہے ہیں اور ”ریاستِ مدینہ“ کے عوام
کی خدمت میں مصروف ہیں۔
اس طرح نو سالہ گل سیما کو سنگسار کرنے والے ملزمان بھی باعزت بری ہوجائیں
گے۔ گل سما کی خبر تو میڈیا پر نشر اور شائع ہوگئی، پتا نہیں کہ روزانہ
کتنے گل سمائیں قتل اور سنگسار ہوتی ہیں اور راتوں رات ان کو دفن کیا جاتا
ہے؟
گل سما بٹیا! ہم ”ریاست مدینہ“ میں صرف آپ کے لیے رو سکتے ہیں، آنسو بہا
سکتے ہیں، کچھ الفاظ لکھ سکتے ہیں، کئی روز تک افسردہ رہ سکتے ہیں، اور اس
کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔
گل سما بٹیا! ہم آپ سے شرمندہ ہیں اوراللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ
سابقہ پاکستان اور حالیہ ریاستِ مدینہ میں مزید گل سمائیں پیدا نہ ہوں۔
تمام مرد اور عورتیں بانجھ ہوں،تاکہ اس جنگل نما ریاست میں جتنے لوگ ہیں،
وہ مر جائیں اور نئی نسل پیدا نہ ہو۔ بقولِ صاحب شاہ صابرؔ
مونگ تر اوسہ لا د زمکی لائق نہ یو
د دُنیا قامونہ ستوری د اسمان دی