عظمیٰ بی بی
سوات کا گاؤں سلام پور مرکزی شہر مینگورہ سے تقریباً 14 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اسلام پور کا گاؤں اپنی ثقافتی کڈھیوں اور اپنے ہنرمندوں کے ہاتھوں کی بنی ہوئی چادروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس گاؤں کی کل آبادی 21 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق سلام پور پاکستان کا واحد گاؤں ہے، جہاں 80 فی صد لوگوں میں سے کوئی بھی بے روزگار نہیں۔ علاقہ مکین کے مطابق سلام پور کی 80 فی صد لوگ چادروں کا کام کرتے ہیں، جب کہ 20 فی صد لوگ باقی شعبہ جات سے منسلک ہیں۔ ان کے مطابق سلام پور کے 80 فی صد لوگوں میں سے کوئی بھی فرد بے روزگار نہیں۔ سلام پور کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے، جہاں بدھ مت اور ہندو مت کے آثار مختلف پتھروں اور لکڑیوں پر پائے جاتے ہیں اور اس قدیم فن کو آج بھی سلام پور کی چادروں پر استعمال کیا جاتا ہے۔ برصغیر کا شاہی خاندان اپنے لیے سلام پور سے شالیں بنواتا تھا۔
سلام پور کو اسلام پور بھی کہتے ہیں کہا جاتا ہے۔ جب لوگ یہاں سے چادریں لے کر آتے جاتے ہیں، تو ساتھ میں کچھ لوگوں کے پیغامات اور سلام لے کر آتے ہیں۔ اس لیے اس گاؤں کو سلام پور کہتے ہیں، لیکن زیادہ اہمیت اسلام پور نام کو حاصل ہے ۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر مذہبی پیشواؤں کا قیام ہوا ہے۔ سلام پور نام کو اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ سلام پور گاؤں تک جانے والی سڑک پر نصب بورڈ پر اسلام پور لکھا گیا ہے ۔ سلام پور میں تقریباً 91 کے قریب کھڈیوں کے کارخانے ہیں۔ سلام پوری شالیں سوات کے علاوہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ باہر ممالک کے سرد ترین خطوں میں بھی بھیجے جاتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق سرد موسم میں ماہانہ تقریباً چار ارب روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔
سلام پور کے ہنرمندوں کے ہاتھوں کی بنی ہوئی چادریں جو بھیڑ بکریوں کی اُون سے بنائی جاتی ہیں، پوری دنیا میں شہرت رکھتی ہیں۔ ان چادروں کے بنانے میں مرد اور خواتین دونوں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ مردوں کا کام اُون کی صفائی سے لے کر چادروں کو تیار کرنے تک ہوتا ہے، جبکہ خواتین ان چادروں کو مزید پُرکشش بنانے کے لیے اس کے اوپر پھول اور مختلف نقش و نگار بناتے ہیں، جن سے چادر کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان چادروں پر خواتین مختلف قسم کی پھول بناتی ہیں۔ جن میں استری پھول، مخی، گندا کلے ، سندھ یان، تعویز گلی، بریگیٹ گلے، دو سوتی اور غوٹہ پھول کے علاوہ مختلف پھول شامل ہیں۔
مقامی خواتین کا کہنا ہے کہ ہم گھر کے کام سے فارغ ہو کر چادروں کا کام (چادر پر پھول بنانے کا کام ) کرتے ہیں اور ان سے ملنے والے پیسوں سے ہم اپنے گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ بچوں کی ضروریات اور اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ رخسانہ جو کہ اسلام پور کی رہنے والی ہے، کا کہنا ہے کہ جب ہم گھر کے کام سے فارغ ہو جائیں، تو پھر اسلام پوری ثقافتی شالوں میں بمبالک کا کام کرتے ہیں۔ جب گھر کا کام زیادہ ہوتا ہے، تو پھر ہم کم شالوں میں بمبالک بناتے ہیں اور اگر گھر کا کام زیادہ نہ ہو، تو پھر ہم زیادہ بمبالک بناتے ہیں۔ گھر کے کام کے ساتھ ہم دن میں 15 چادروں میں بمبالک بناتے ہیں۔ ہم ایک شال کا معاوضہ 7 سے لے کر 15 روپے لیتے ہیں۔ چونکہ بمبالک کا کام آسان ہوتا ہے، اس لیے ہم کام کے ساتھ بھی یہ بناتے ہیں اور یہ چھوٹے بچے بھی بناتے ہیں۔ یہ انتہائی آسان ہوتے ہیں۔ تو معاوضہ اس کا باقی پھول بنانے کے کام کی نسبت کم ہوتا ہے۔ اسلام پور کے بزرگ افراد بھی اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے چادروں کے کام میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
زاہدہ جس کی عمر 59 سال ہے، ان کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے کام پر چلے جاتے ہیں اور بچے سکول جاتے ہیں۔ بہوؤیں گھر کے کاموں میں مصروف ہوجاتی ہیں، تو اس لیے میں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے چادروں میں بمبالک بناتی ہوں۔ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ20 چادروں میں بمبالکبناتی ہوں۔ مجھے ایک چادر کے 15 روپے ملتے ہیں۔
علاقے کے مکین کہتے ہیں کہ پہلے کی نسبت کام میں آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ جدید کھڈیوں کی وجہ سے کام جلد ہو جاتا ہے۔
گاؤں میں دو قسم کی کھڈیاں ہیں۔ ایک پرانی کھڈی جو زمین کے اندر کھودی جاتی ہے، جبکہ دوسری قسم کی کھڈی زمین کے اوپر مشین نصب کرکے بنائی جاتی ہے ۔
ہنرمندوں کے مطابق جدید کھڈیوں کی وجہ سے وقت کم لگتا ہے اور کام زیادہ ہو جاتا ہے، جبکہ روایتی کھڈی سے کام کم ہوتا تھا اور وقت زیادہ لگتا ہے۔
گاؤں میں دونوں قسم کی کھڈیوں سے چادریں تیار کی جاتی ہیں ۔
حفصہ جو پچھلے 20 سالوں سے اسلام پور میں رہائش پذیر ہیں، ان کے مطابق پرانے وقتوں میں گاؤں کی خواتین مشین (سرخہ) کی مدد سے دھاگے کی ریل بھرتے تھے جس میں بہت زیادہ وقت لگتا تھا اور دھاگے بھی کم بھرا کرتے تھے لیکن ابابیل مشین جو کہ ایک آٹومیٹک مشین ہے، اس میں ہم دھاگا ڈالتے ہیں۔ یہ تھوڑے وقت میں دھاگے بھر دیتے ہیں۔
گاؤں میں مختلف قسم کی اون سے چادریں لوگوں کی پسند کے مطابق تیار کی جاتی ہیں۔ خریدار کاؤنٹ نمبر کے مطابق اپنے لیے شالیں بنواتے ہیں۔ کاؤنٹ نمبر اون کے معیار کی پہچان ہے، جیسا کہ 4 8، 5 2، 64اور 72 کاؤنٹ نمبر اون کے معیار کو ظاہر کرتے ہیں۔
اسلام پور کے ہنرمند، لوگوں کے مطالبات کے مطابق بھی چادریں تیار کرتے ہیں۔
فریدہ بانو جو کہ اسلام پور کی رہائشی ہیں، ان کے مطابق مردانہ چادروں کی قیمتیں 1500 سے لے کر 10 ہزار تک ہوتی ہیں۔ اس میں سب سے مہنگی چادر ڈھائی لاکھ روپے کی ہوتی ہے۔ اس کو شوقیہ چادر کہا جاتا ہے۔ یہ خریدار کی خواہش کے مطابق تیار کی جاتی ہے ۔ شوقیہ چادریں انتہائی کم بنتی ہیں۔ یہ سال میں صرف دو یا تین ہی بنتی ہیں۔ چونکہ یہ چادریں پُرکشش ہونے کے ساتھ ساتھ معیاری بھی ہوتی ہے ، اس لیے ان کو بہترین اون سی بنایا جاتا ہے۔ ذوق والی چادر کو پشم اون جو کہ سال میں صرف دو بار آتی ہے، تیار کی جاتی ہے۔ اس طرح خواتین کی چادروں کی قیمتیں 600 سے شروع ہو کر 30 ہزار تک ہوتی ہیں۔ خریدار خواتین 48 اور 72 نمبر اُون کو زیادہ پسند کرتی ہیں۔ اس کی تار باریک ہوتی ہے جو بہترین اون مانی جاتی ہے۔ یہ ملائم ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت زیادہ ہوتی ہے اور وزن کے حساب سے بھی ہلکی ہوتی ہے، جو خریدار کو بہت پسند آتی ہے۔ آج کل لوگوں کو بھاری چیزیں کم پسند آتی ہیں۔
فریدہ بانو کہتی ہے کہ جب ہمیں شوقیہ چادروں کا آرڈر ملتا ہے، تو مرد اور خواتین انتہائی محنت، توجہ اور صفائی سے چادر اور اس کے اوپر پھول بنواتے ہیں، تاکہ خریدار کی پسند کے مطابق چادر تیار کرسکیں۔
سلام پور گاؤں کے علاوہ بھی نہ صرف سوات بلکہ پورے پاکستان کی خواتین اسلام پور کی روایتی چادروں پر پھول بنوانا پسند کرتی ہیں۔
محمد حفیظ الرحمان، سلام پور کے ایک مقامی دکان کے مالک ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنے صنعتی گاؤں سلام پور سیکٹر کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے مطابق جتنے بھی سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیں، سب ہنرمندان کے نام سے چلتے ہیں۔ چونکہ ہنرمندان کا مقصد ہی ہنرمند مرد اور خواتین کو مالی لحاظ سے سہارا دیناہے اور اپنی روایتی ثقافت کو بھی فروغ دینا ہے۔ اس لیے ہم زیادہ تر کم آن لائن کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس سوات کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان، ملتان، ہری پور اور دیگر علاقوں کی خواتین کام کرتی ہیں۔ ہم ان کو چادریں تیار کر کے بھیج دیتے ہیں اور چادروں میں مزید خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے اس کے اوپر پھول بنواتے ہیں۔
سلام پور گاؤں کے علاوہ سوات کے دیگر گاوؤں میں بھی سلام پوری چادروں پر خواتین کام کرتی ہیں۔
فاطمہ اپنے چار بچوں کے ساتھ چارباغ گاؤں میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں سلام پور جاتی ہوں اور وہاں سے چادریں لے کر آتی ہوں اور آس پاس کی لڑکیوں میں بانٹ دیتی ہوں۔ اس میں کچھ چادریں کام کے لحاظ سے آسان ہوتی ہیں اور کچھ مشکل۔ جن چادروں کا کام آسان ہوتا ہے، ان کے اوپر کم پھول بنانے ہوتے ہیں۔ ایسی چادروں کی قیمت 300 روپے سے شروع ہو کر 1200 روپے تک ہوتی ہے۔ مشکل پھولوں والی چادروں کی قیمت 1500 سے لے کر 3 ہزار روپے تک ہوتی ہے۔
وہ آگے کہتی ہیں کہ میں لڑکیوں کو ان کے کام کے مطابق پیسے دیتی ہوں۔ ہر ایک چادر میں، مَیں 50 روپے لیتی ہوں۔ کیونکہ میں خود اسلام پور جا کر شالیں لے کر آتی ہوں۔ میرا کرایہ لگتا ہے اور ساری ذمے داری بھی میری ہوتی ہے۔ مالک کو اس کی چادریں واپس دینا کچھ کم آسان کام نہیں۔ ہم فارغ وقت میں یہ کام کرتے ہیں۔ اس کام سے ملنے والے پیسوں سے ہم بچوں کی چھوٹی بڑی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اور باقی گھر کے اخراجات میں صرف کرتے ہیں۔
خواتین گھر کے کام کے ساتھ ساتھ مردوں کے ساتھ بھی ہاتھ بٹاتی ہیں۔ ناصر علی (جو کہ فاطمہ کا شوہر ہے) کہتے ہیں، اس مہنگائی کے دور میں ایک فرد کی کمائی سے گھر کا چولھا نہیں جلتا۔ گھر کے کئی مسائل ہوتے ہیں، بچوں کے سکول، مدرسہ اور ٹیوشن کی فیسوں کے ساتھ ساتھ صحت کے بھی کئی مسائل ہوتے ہیں۔ ایک بندے کی کمائی سے یہ تمام کام نہیں نمٹائے جاسکتے۔ جب گھر کا دوسرا فرد خاص کر خواتین مردوں کے ساتھ اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرے، تو گھر کی اخراجات احسن طریقے سے پورے ہوجاتے ہیں۔
سلام پور گاؤں کے خاص لوگ (معاشرے کے وہ افراد جو دوسرے انسانوں سے مختلف ہوتے ہیں) بھی چادروں کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے لیے کمائی کا ذریعہ بھی بناتے ہیں۔ 8 سالہ جویریہ جو کہ اسپیشل پرسن ہے، کا کہنا ہے کہ جب میں سکول اور مدرسے سے فارغ ہو کر بمبالک کا کام کرتی ہوں، تو میرا ایک ہاتھ ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتا، لیکن دوسرے ہاتھ کی مدد سے یہ کام کرسکتی ہوں۔ مجھے ایک چادر کے 7روپے دیتے ہیں اور میں ایک دن میں پانچ چادروں میں بمبالک بنا سکتی ہوں۔
اس گاؤں کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کی خواتین دوسرے علاقوں میں بھی اس روایتی فن کو منتقل کرتی ہیں اور علاقے کی خواتین کے لیے روزگار کا ذریعہ بناتی ہیں۔
صبیحہ جوکہ اسلام پور کی رہائشی تھیں، جس کی شادی کالاکوٹ میں ہوئی ہے۔ پچھلے آٹھ سالوں سے کالاکوٹ کی لڑکیوں کو چادروں پر پھول بنانے کا کام سکھاتی ہیں، جس سے وہ نہ صرف ہنر سیکھتی ہیں بلکہ گھر کے لیے بھی ان کی کمائی مفید ہوتی ہے۔
صبیحہ کے مطابق ان کے پاس باقاعدگی سے 15 لڑکیاں کام کرتی ہیں۔ جب سکول کی چھٹی ہوتی ہے، تو پھر لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جب میں اپنے میکے جاتی ہوں، تو وہاں سے اپنے ساتھ ڈھیر ساری چادریں لے کر آتی ہوں اور میرے ساتھ جو لڑکیاں کام کرتی ہیں، ان میں بانٹ دیتی ہوں۔ مَیں اُن کو اُن کے کام کے مطابق معاوضہ دیتی ہوں۔ جو لڑکی صفائی کے ساتھ پھول بناتی ہے، اس کو زیادہ پیسے دیتی ہوں۔ جو مہارت کے ساتھ پھول نہیں بناسکتی، اس کو باقیوں کے مطابق کم معاوضہ ملتا ہے۔ شروع میں جو لڑکیاں میرے پاس آتی ہیں۔ ان کو ہم آسان پھول بنانا سکھاتے ہیں۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ خود سے بھی نئے طرز کے پھول بنانے میں لڑکیاں تجربہ کار ہوجاتی ہیں ۔ ہم لڑکیوں کو 300 روپے سے لے کر 2500 تک کا معاوضہ دیتے ہیں۔ میرے پاس لڑکیاں استری ، مخی، گندا گلے ، تعویز گلی ، دوسوتی ، بریکٹ گلی الغرض ڈھیر سارے پھول بناتی ہیں، لیکن زیادہ ہم استری پھول، تعویز گلی اور دو سوتی پھول بناتے ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر خریدار خواتین ان پھولوں کو پسند کرتی ہیں۔
صنعتی گاؤں ہونے کے باوجود یہاں پر کوئی بھی سینٹر نہیں، جس میں خواتین کام کر سکیں، ہنر خود بھی سیکھیں اور دوسروں کو بھی سیکھائیں ۔
ایس آر آئی تنظیم کی سیکرٹری اختر جہاں جو کہ اسلام پور کی رہائشی ہیں، ان کے بقول ان کے گاؤں کا ہر چھوٹا بڑا سب چادروں کا کام کرتے ہیں۔ کہتی ہیں کہ خاص کر ہمارے گاؤں کی خواتین کے ساتھ ساتھ دوسرے علاقوں کی خواتین بھی یہ کام کرتی ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے گاؤں سلام پور میں کوئی بھی سینٹر نہیں۔ اب چونکہ نئی نسل آرہی ہے، تو ہمیں سینٹر کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہمارے گاؤں کی لڑکیوں کے ساتھ دوسرے علاقوں کی لڑکیاں بھی یہ ہنر سیکھیں۔
ہمارے گاؤں سلام پور میں 13 سال پہلے سینٹر ہوا کرتے تھے۔ اب 13سال ہوگئے کہ ہمارے لیے حکومت نے کوئی بھی سینٹر قائم نہیں کیا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس فن کو فروغ دے کر یہاں پر سینٹرز قائم کرے۔
گاؤں کی خواتین حکومتِ وقت کی منتظر کہ ان کے گاؤں میں سینٹرز قائم کیے جائیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان ہنرمند خواتین کے لیے ادارے قائم کرے، جس سے وہ اس فن کو مزید فروغ دے سکیں۔
یہ چادریں نہ صرف سوات بلکہ پورے پاکستان کی نمائندگی کرتی ہیں اور یہ شالیں نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونی ممالک بھی بھیجی جاتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان ہنرمندوں کے لیے موقع فراہم کرنے کے ساتھ اس ہنر کو فروغ بھی دے ۔