ڈاکٹر ہمایون ھما
روزانہ علی الصبح جب ہم اپنی چھوٹی سی چھڑی ہاتھ میں لیے اپنی بستی کی خاموش سٹرکوں پر ایک بھر پور ناشتے کے لیے پیٹ میں جگہ بنانے گھر سے نکلتے ہیں تو اس طرح چلتے پھرتے اور بھی بہت سے لوگوں پر ہماری نظر پڑتی ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ صرف چہل قدمی کرتے ہیں اور اردگرد کے نظاروں کو ایسی حسرت سے دیکھتے ہیں جیسے یہ ان کی خدانخواستہ زندگی کی آخری واک ہو۔ یہ سبک خرام لوگ دل کے مریض ہوتے ہیں اور ان کا صبح سویرے گھر سے نکلنے کا مقصد صرف اپنے سینے میں دل کو چالو حالت میں رکھنا ہوتا ہے۔ کچھ منچلے نوجوان ٹریک سوٹ پہنے پسینے میں شرابور اتنی تیزی کے ساتھ دوڑ لگاتے ہوئے پاس سے گزرتے ہیں گویا وہ کسی عالمی مقابلے میں شرکت کے لیے تیاری کر رہے ہوں، کچھ ایسے نورانی چہروں والے سفید ریش بزرگ بھی ٹہلتے ہوئے سامنے آتے ہیں جن کے ہاتھ میں ایک لمبی تسبیح ہوتی ہے وہ ساتھ ساتھ خدا کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ صبح کی ملگجی روشنی میں گدھا گاڑیوں میں سوار پورا کنبہ رزق کی تلاش میں سرگردان نظر آتا ہے اس کنبے میں بوڑھے ، بچے، جوان اور چادروں میں لپٹی عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ پانچ چھ چھ سال کے کچھ بچے بھی ہم دیکھتے ہیں جن کے گلے میں ٹوکری اور ہاتھ میں ایک بڑے سائز کی کتیلی ہوتی ہے۔ یہ بچے باری باری خوبصورت بنگلوں کے آہنی گیٹوں کے سامنے ڈرتے ڈرتے ’’وظیفہ راوڑئی خدائے مو اوبخہ‘‘ کی ہلکی سی آواز لگاتے ہیں پھر ایک طرف سمٹے سمٹائے کھڑے انتظار میں رہتے ہیں کہ یہ آہنی گیٹ کھلے گا اور کوئی رات کے کھانے سے بچے کھچے روٹی کے ٹکڑے ان کے گلے میں لٹکی ٹوکری میں ڈال دے گا۔ وہ یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ کوئی خدا ترس حاتم طائی کی روح کو شرمندہ کرتے ہوئے ان کی کیتلی میں ایک آدھ پیالہ چائے کا بھی انڈیل دے گا ہم نے کئی بار نوٹ کیا ہے کہ ان کی آواز پر بہت کم لوگ توجہ دیتے ہیں، البتہ گھر کے اندر بندھا خونخوار کتا ان کی آواز کے جواب میں ضرور بے تحاشا بھونگنے لگتا ہے، جب وہ بند گیٹ کے نچلے حصے یا گیٹ کی سلاخوں میں سے آہنی تھوتھنی نکال کر بھونکنے کے علاوہ ان بچوں پر اپنے گندے منہ کی غلیظ جھاگ اچھالنے لگتا ہے تو پھر یہ بچے وہاں سے ٹلنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، اب وہ کسی دوسرے مکان کے سامنے کھڑے ہو کر وظیفہ راوڑئی کی آواز سے وہاں کے کتے کے غیض و غضب کا نشانہ بنتے ہیں۔ ان کتوں کی آواز پر بعض گھروں کے مکین جاگ بھی پڑتے ہیں اور گیٹ کھول کر ان کو کچھ دینے کی بجائے جھاڑ پلاتے ہوئے بھگادیتے ہیں۔ سینکڑوں گھروں کے سامنے یہ عمل دہرانے کے بعد واپسی پر ان بچوں کی ٹوکری میں روٹی کے کچھ ٹکڑے اور کیتلی میں تھوڑی بہت چائے ہوتی ہے یہ بچے ٹوکری میں پڑے روٹی کے سوکھے ٹکڑے اور کیتلی کی ٹھنڈی چائے فوری طور پر مسجد یا اس دینی مدرسے میں پہنچانا چاہتے ہیں جہاں مولوی صاحب یا مدرسے کے استاد دروازے پر آنکھیں جمائے ان کی راہ تکتے ہیں اور وہ ان بچوں کی لائی ہوئی نعمتوں کا ناشتہ کرتے ہیں پھر اس دین مبین کی تدریس کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کا بنیادی فلسفہ ہی مور بے مایہ کو ہم دوش سامان کرنا ہے اور جس کے پیروکاروں کے بچوں سے حکیم الامت علامہ اقبال نے یہ دعا کہلوائی ہے:
؎ دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہوجائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
ایک روز شاہینوں کی اس ٹولی کے ایک بچے نے جب ہمارے قریب سے گزرتے ہوئے آہستہ سے سلام کیا تو ہم نے اسے روک کر پوچھا۔ بیٹا تم کہاں سے آئے ہو؟ بچے نے دیر کے کسی دورافتادہ پہاڑی گاؤں کا نام لیا اور ہمارے سوالوں کے جواب میں مزید بتایا کہ اس کا باپ فوت ہوچکا ہے ماں وہاں کے کسی خان کے گھر میں خدمت کرتی ہے اس کی دو چھوٹی بہنیں بھی ہیں جو ماں کے ساتھ رہتی ہیں۔ میں بھی پہلے وہاں پر ہی تھا ماموں نے پھر مجھے دینی مدرسے میں داخل کرادیا۔ ہم نے بچے کی یہ کہانی بڑی دلچسپی سے سنی پھر اس سے بڑی رازداری میں پوچھا۔ بیٹا ! تم نے کبھی بم دیکھا ہے؟ بچے نے بڑی معصومیت سے سر ہلا کر انکار کیا۔ خودکش حملہ جانتے ہو؟ اس سوال کا جواب بھی اس نے نفی میں دیا۔ کلاشنکوف تو کبھی دیکھی ہوگی؟ ہمارے ان تابڑ توڑ سوالوں کے جواب میں بچے کے چہرے پر حیرت و استجاب کے بادل چھاگئے اور وہ ہمیں کچھ ایسی نظروں سے دیکھتے ہوئے روانہ ہوگیا گویا ہماری دماغی حالت درست نہ ہو، وہ کافی دیر تک ہمیں پیچھے مڑ مڑ دیکھتا رہا۔ بچہ تو ہمیں پاگل سمجھ کر چلا گیا لیکن ہم یہ سوچتے رہے کہ ہمارے گردوپیش میں بے شمار چھوٹے چھوٹے دینی مدارس ایسے سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں یتیم بچوں کی کفالت کرتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کم و بیش دس لاکھ بچوں کو ان مدارس نے سر چھپانے کی چھت فراہم کر رکھی ہے۔ صدر مملکت بھی فرماتے ہیں کہ دینی مدارس غیرسرکاری اداروں (NGOs) کے طور پر ملک و قوم کی بہترین خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ ان مدارس کی وجہ سے لاتعداد یتیم بچے معاشرے میں چاروں طرف پھیلی ہوئی ایسی غلاظتوں سے محفوظ زندگی بسر کر رہے ہیں جو بصورت دیگر ان کی اخلاقی گمراہی کا سبب بن سکتی ہیں۔ ان دینی مدارس کا ’’وظیفہ راوڑئی‘‘ پر دارومدار ہے۔ ہمارے معاشرے کے وہ صاحب ثروت لوگ جن کے کنبے کا ہر فرد اپنی اپنی کار پر کالج، دفتر اور شاپنگ سنٹر جاتا ہے مگر وہ وظیفہ راوڑئی کی آواز پر یتیم اور بے سہارا بچوں کو روٹی کا ایک ٹکڑا اور چائے کی ایک پیالی تک فراہم نہیں کر سکتے۔ اگر ان بچوں کی پناہ گاہیں حکومت کے کریک ڈاؤن کی زد میں آگئیں تو پھر ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ ہم اس موقع پر یہی دعا مانگ سکتے ہیں کہ اے خدا ان بچوں کے دن پھیر، ان کے ہاتھوں میں بھیک کی ٹوکری کی بجائے کھلونے اور کتابیں دے اور ان کے نصیب میں وہ خوشیاں لکھ دے جو ان کی عمر کے دوسرے بچوں کو نصیب ہیں نیز ہماری حکومت کو بھی اس سلسلے میں سوچ سمجھ کر کوئی مثبت فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین