”بحثونہ د ہوا پہ چپو“ سخرہ مٹہ (سوات) سے تعلق رکھنے والے مخلص، ادب دوست اور مہمان نواز شخصیت امیر زیب زیبؔ کی تالیف کردہ کتاب کا نام ہے۔ ادبی حوالے سے یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کو ادب کے فروغ کے لیے بھی استعمال کیا جائے۔ اس حوالے سے سوات میں ”سوات نیٹ“، ”ادھیانہ نیٹ“ اور ”زیب گرزندہ پنڈار“ نامی موبائل نیٹ ورک کافی عرصے ہوا کے دوش پہ ادبی محفلیں منعقد کرتے رہتے ہیں۔
”بحثونہ د ہوا پہ چپو“ بھی آخر الذکر نیٹ ورک کی اُن ”ہوائی محفلوں“ کی رودادیں ہیں جو مختلف اوقات میں مختلف موضوعات پہ سجائی گئی تھیں۔ اس کا طریقہئ کار یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک موضوع کا انتخاب کرکے شرکا کو پیشگی اطلاع دے دی جاتی ہے۔ مقررہ وقت پہ کانفرنس کال کے ذریعے ستاروں کی آبجو (بنڈار) کے شرکا کو موبائل پہ لیا جاتا ہے، اور موضوع پہ بحث و مباحثے کا آغاز کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ آدھ یا ایک گھنٹا تک کی اس محفل میں میزبان باقاعدہ تلاوت بھی کراتا ہے، اور پھر محفل کی صدارت بھی کسی کی تفویض کرتا ہے۔

مذکورہ کتاب 128 صفحات پر مشتمل ہے۔ جس کی پشت پہ ڈاکٹر محب وزیر نے اپنے تاثراتی کلمات میں لکھا ہے کہ ”شاعر، ادیب اور دانشور اپنے فکر کے جو موتی ہوا میں منتشر کردیتے ہیں۔ امیر زیب زیبؔ انہیں چن چن کر کاغذوں میں سجاتا جاتا ہے۔“
یقینا یہ ایک مشکل کام بھی ہے اور ناممکن بھی۔ وہ اس لیے بھی کہ کبھی سگنل ٹوٹ جانا، کبھی آواز کا نہ آنا، کبھی ایکو ہوجانا، تو کبھی ڈبل آوازوں کا آپس میں گندھ جانا ایسے مسائل ہیں جنہیں بار بار ریورس کرکے سننا اور پھر انہیں ترتیب سے لکھنا یقینا ایک جان گسل کام ہے، لیکن ادب کے چند سر پھرے ایسا انہونا کام کرجاتے ہیں۔ زیبؔ نے یہ مشکل کام کردکھایا جس پہ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
ہوائی محفل ”زیب ادبی بنڈار“ کے نام سے عمل میں آئی۔ اس کے بانیوں میں سرور خٹک، صابر احمد، داؤد جان، اثرؔ بونیرے، داؤد جان غمگینؔ، ظہور عامر، حکیم زے برادرز، ایوب ہاشمی اور خود امیر زیب زیبؔ شامل تھے۔ مختلف اوقات میں صدارت کے عہدوں پہ رہنے والوں میں سرور خٹک، نادر خان علیل اور بدرالحکیم حکیم زے شامل ہیں جب کہ سیکریٹری کے عہدوں پہ رہنے والوں میں سمیع اللہ گرانؔ، داؤد جان اور امیر زیب زیبؔ شامل ہیں۔ نائب صدارت خواتین لکھاریوں کے لیے مختص تھی جس میں ثمینہ قادر، کلثوم زیب اور زیبا آفریدی کے نام کتاب میں شامل ہیں۔
یوں تو کتاب میں کئی ایک محافل کی رودادیں موجود ہیں، لیکن کچھ خاص موضوعات قابلِ ذکر ہیں۔ جیسا کہ صفحہ نمبر 20پہ ”سٹائل یا اسلوب“ کا عنوان قابل توجہ ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ ”اسلوب دراصل ایک لفظ نہیں بلکہ اک اصطلاح کا نام ہے۔ تجربے اور تاثرات مشترک ہوسکتے ہیں مگر اسلوب، طرزِ نگارش یا اندازِ تحریر کسی شخص کی اپنی ملکیت ہوتے ہیں۔ ہم خیالات تو مستعار لے سکتے ہیں، اسلوب نہیں۔“

صفحہ نمبر 28پہ ”جدت“ کا عنوان ہے۔ اس حوالے سے لکی مروت کے ہمارے دوست نادر خان علیلؔ فرماتے ہیں کہ ”جدت، ظاہری حُلیے یا زیبائش کا نام نہیں بلکہ سوچ اور نئے پن کا نام ہے۔“ انہوں نے اپنے مقالے میں تاریخی جدت، لفظی جدت اور معنوی جدت کی پرتیں بھی خوب وا کی ہیں۔
صفحہ 33 پہ ”رومانیت“ کا موضوع ہے۔ حکیم زے صاحب نے اس حوالے سے فرمایا ہے کہ ”رومانیت نے روایت سے بغاوت کرتے ہوئے ادب میں نئے موضوعات چھیڑے، مثلاً دماغ کی بجائے دل کی طلب، دشمنی کی بجائے مظلوموں کی حمایت، عورتوں کے حقوق اور نفسیات کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی حمایت وغیرہ۔“
جب کہ شہر یار داغؔ نے اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ ”خوشحال خان خٹک مشرق میں پہلے سرخیل ہیں جنہوں نے جمہوریت کی بات کی۔“
اگلی روداد زیبؔ کی غزل کی تنقید کے حوالے سے ہے جس کے دو شعر مجھے بہت اچھے لگے، لکھتے ہیں:
جنجیانو پہ ہوا ہوا کے وڑم پہ سرہ ڈولئی کے
وڑو کے ووم د ناوے سرہ تلم پہ سرہ ڈولئی کے
چی زہ بہ کلہ کلہ غورزیدم پہ سرہ ڈولئی کے
ہغی بہ پہ سرو لاسو رانیوم پہ سرہ ڈولئی کے
اگلے پڑاؤ میں نادر خان علیلؔ کی خوبصورت غزل کی تنقیدی نشست کا احوال درج ہے، جس کا مطلع ہے:
د بغاوت ہم نوا شوے یمہ
وطنہ زہ بے وفا شوے یمہ
اور یہ بھی کہ
اوس نہ ہجرہ شتہ، نہ منگے نہ رباب
یمہ پختون خو مُلا شوے یمہ
صفحہ نمبر 48 پہ ”کلاسیکی ادب“ کا عنوان درج ہے۔ اس حوالے سے پروفیسر عثمان بتاتے ہیں کہ ”اِک فن پارہ جسے اس دور کے اعلیٰ دماغ تسلیم بھی کریں، اور اس کی تائید بھی کریں۔ اسی فن پارے کو مستقبل میں بھی تائید و تسلیم حاصل ہو، کلاسیکی ادب کہلاتا ہے۔“
اگلا موضوع ”متل، محاورہ اور روزمرہ“ کے حوالے سے ہے۔ جس پہ بدرالحکیم حکیم زئی نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
اس کے بعد ”پہ پختو ژبہ خارجی اثرات“ کے حوالے سے نادر خان علیل ؔاور بدرالحکیم حکیم زئی، کے زریں خیالات کتاب کی زینت بنے ہیں۔
اگلا پڑاؤ ”تصوف“ کے حوالے سے ہے۔ جس میں پروفیسر عثمان اور بدرالحکیم نے موضوع پہ کھل کے اظہارِ خیال کیا ہے۔
صفحہ نمبر 71پہ ”د پختو موسیقی“ کے موضوع پہ نادر خان علیلؔ کا جامع احوال درج ہے، جس میں طاہر آفریدی، حکیم زئی اور پروفیسر عثمان کے خیالات بھی شامل ہیں۔
اگلا موضوع ”پختو ادب کی ترقی پسندی“ ہے۔ اس موضوع پہ بھی نادر خان علیلؔ نے خوب روشنی ڈالی ہے۔
”توہمات“ کے موضوع پروفیسر عثمان جب کہ ”قام پرستی“ کے موضوع پر علیلؔ صاحب اور پرویز مجہور خویشگی نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
اگلا موضوع ”راج ولی شاہ خٹک“ کے حوالے سے ہے۔
ہمارے دوست طاہر بونیری کی اِک غزل کا محاکمہ بھی اک نشست میں کیا گیا ہے۔ نیز ”طاہر آفریدی فن اور شخصیت“ کے ساتھ ساتھ ”د خوب لیدل“ اور ”د جناتو حقیقت“ بھی کتاب کے آخری صفحات کی زینت ہیں۔
کتاب کی قیمت 200روپے ہے۔ یہ کتاب ہر اچھے کتاب گھر میں موجود ہے، جب کہ امیر زیب زیبؔ سرخیلی سے 0341-9011144 پہ بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔