قدیم ادھیانہ سلطنت کی پرانے وقتوں میں خوب صورتی اور بدھ مت کے عظیم مرکز ہونے کی اہمیت کو یہاں آئے ہوئے چینی زائرین کی کتابوں اور لکھائی سے مزید اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو یہاں سوات خالص اور حقیقی بدھ مت کی کھوج میں آئے تھے
فاہیان کا سفر:
399 اور 414 عیسوی کے درمیان چینی راہب فاہیان اپنے دور ے میں وسطی ایشیا سے ہوتے ہوئے سوات میں داخل ہوا،اپنے دوسرے ساتھیوں سمیت جب وہ سوات آیا تو اس نے دیکھا کہ یہاں کے لوگ وسطی ہندوستان کی زبان بولتے ہیں،وہاں کی خوراک کھاتے ہیںاور انہی کی طرح لباس پہنتے ہیں۔یہاں بدھا کے قوانین پروان چڑھے ہیں۔یہاں تمام راہب جو کہ ہنایانہ بدھ مت کے طالب علم ہیں،خانقاہوں میں قیام کرتے ہیں۔ان خانقاہوں کی تعداد تقریبا پانچ سو کے قریب ہیں۔فاہیان لکھتا ہے کہ یہاں جو راہب آتے ہیں ،ان کی تین دن تک مہمان نوازی کی جاتی ہے اور اس کے بعد ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنے لئے خود رہن سہن کا انتظام کریں
فاہیان اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ یہاں یہ بات مشہور ہے کہ بدھا اپنے شمالی ہند کے سفر میں یہاں سوات آیا تھا اور یہاں اپنے پائوں کا نشان چوڑا ہے یاد رہے کہ بدھا کے مقدس پاوں کا نشان آج کل سوات کے عجائب گھر میں پڑا ہوا ہے اور بدھ مت کے پیروکار اور زائرین اس کے زیارت کے لئے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ فاہیان اس بات کی بھی گواہی دیتا ہے کہ انہوں نے یہاں ایک چٹان دیکھا ہے جس پر بدھا نے اپنے کپڑے سکھائےتھے اور یہاں کے ایک ظالم اژدھا کو پتھر میں تبدیل کردیا تھا ۔لفظ ادھیانہ کا زکر پہلی مرتبہ فاہیان ہی نے اپنے سفر نامے میں ہی کیا ہے،،،،،،،جاری ہے
سوات کے مصنف اور کالم نگار فضل خالق کے کتاب ” ادھیانہ :سوات کی جنت گم گشتہ” سے اقتباس