فضل محمود روخان

سال تو مجھے یاد نہیں، مگرگرمیوں کا موسم تھا۔ ضیاء الحق کی فوجی حکومت تھی۔ مَیں پختونوں کے عظیم مؤرخ خان روشن خان صاحب کے ہاں صوابی میں تھا۔ پروفیسر پریشان خٹک کی قبر پر سلامی دینے گیا تھا، اور دعا کے علاوہ اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کررہا تھا۔ خان روشن خان صاحب نے مجھے اس موقع پر کہا کہ خوشحال خان خٹک اعلیٰ پائے کے شاعر اور اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ پشتو زبان و ادب پر اُن کا بڑا احسان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی یہ بھی خوش نصیبی ہے کہ آج بھی خٹک قبیلے میں ایسے بااثر اور بڑے لوگ ہیں کہ تین سو سال بعد ضیاء الحق جیسے فوجی آمر کو بھی خوشحال خان خٹک کی قبر پر لاکر اُن سے سلامی دلوائی جا رہی ہے۔ ایک ہم یوسف زئی پختون ہیں کہ حافظِ الپورئی جیسی قدآور شخصیت اور صوفی شاعر جو اپنا ثانی نہیں رکھتے، الپورئی کے پہاڑوں میں گمنام لحد میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ اعلیٰ پائے کے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ حافظِ قرآن تھے، صوفی اور ولی اللہ تھے۔ اُن کی شاعری میں پند و نصیحت ہے۔ اُن کی علمیت اُن کی شاعری سے عیاں ہے، لیکن آج اُن کے مزار پر دعا پڑھنے کے لیے اِکا دُکا شاعر ہی آتا ہے۔اپنے یوسف زئی قبیلے میں اُن کے ہم نوا بہت کم ہیں۔
جب میں خان روشن خان مرحوم کی ان باتوں پر غور کرتا ہوں، تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ ہم یوسف زئی پختون سب کے سب حافظِ الپورئی کے مجرم ہیں کہ ہم اُن کو وہ مقام نہ دلاسکے، جن کے وہ صحیح معنوں میں حق دار ہیں۔ اُن کی شاعری کسی بھی لحاظ سے عبدالرحمان بابا، خوشحال خان اور دوسرے کلاسیکل شعرا سے کم نہیں۔ اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے، تو یہ ہماری کم ہمتی ہے کہ آج تک ہم اُنہیں پشتو ادب میں صحیح طور پر متعارف نہ کراسکے۔ اس کی ڈھیر ساری وجوہات ہیں، جن میں سے ایک اُن کے وارثوں کا ناقابل فہم رویہ ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ اُن کی شاعری میں عربی، فارسی اور دوسری زبانوں کے الفاظ ہیں۔ ریاستِ سوات کے پہلے دورِ حکومت میں سرکاری کوششوں سے اُن کا دیوان جوں کا توں شائع کیا گیا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ اُن کی شاعری کی تشریح اور مشکل الفاظ پر کام ہوتا رہا۔ آج ہماری نوجوان نسل کے شعرا و ادبا اس قابل ہوگئے ہیں کہ اُن کا دیوان عام فہم اور آسان زبان میں شائع کرانے کی سعی کریں۔ اس سلسلے میں حافظ الپورئی ادبی ٹولنہ، ضیاء الدین یوسف زئی اور فضل ربی راہی کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ اب بہت جلد حافظ الپورئی کا دیوان ایک نئی اور جدید شکل میں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوگا، اور عام قاری کی یہ شکایت بڑی حد تک دور ہوجائے گی کہ حافظِ الپورئی کی شاعری ناقابلِ فہم ہے۔
جہاں تک حافظِ الپورئی کو اُن کا اعلیٰ مقام دینے کا سوال ہے، تو اس سلسلے میں ہمیں کام کرنا ہوگا۔ ہمارے پختونخوا کے سکولوں، یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبہ کو آگے آنا ہوگا اورحافظِ الپورئی کی شاعری پر ہر زاویے سے تحقیق کرنا ہوگی۔ اُن پر تھیسز لکھنا، اُن پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھنا ہوں گے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ کو طلبہ سے یہ کام لینا ہوگا۔
دوسری بات یہ کہ اُن کی شاعری کو اُردو اور انگریزی میں بھی ترجمہ اور شائع کرانا چاہیے۔ آج ہم اس قابل ہیں کہ اُن کی شاعری کو انگریزی اور اُردو زبان میں اچھے ترجمہ کے ساتھ شائع کریں۔ آج اگر سندھی زبان و ادب میں سچل سرمست اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کا نام لیا جارہا ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے افکار کو انگریزی اور اُردو میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔ ان تراجم میں جن لوگوں نے کام کیا ہے، ان میں سندھی زبان کا بڑا شاعر شیخ ایاز اور ارنسٹ ٹرمپ شامل ہیں جنہوں نے 1866ء میں ایک ترجمہ جرمنی میں شائع کیا۔ ڈاکٹر سورلے اور این میری شمل نے انگریزی میں تراجم کرکے شائع بھی کیے اور اوپر ذکر شدہ صوفیوں کو دنیا سے متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا۔ اس طرح بھلے شاہ، وارث شاہ، بابا فرید، مست تو کلی، رحمان بابا اور خوشحال خان خٹک کی شاعری بھی تراجم کے مراحل سے گزر کر دنیائے ادب میں اپنا لوہا منواچکی ہے۔
اب وقت ہے کہ ہم بھی حافظِ الپورئی کی شاعری کو عام کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کام شروع کریں۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اُنہیں متعارف کرائیں۔ مَیں مانتا ہوں کہ یہ مشکل کام ہے، اس میں وقت اور پیسہ لگنا ہے، لیکن ہمیں یہ قربانی دینا ہوگی۔ ہمیں اپنے اکابرین کے لیے آگے آنا ہوگا۔ تاریخ میں اُنہیں اُن کا مقام دلوانا ہوگا۔
آج اگر ضیاء الدین یوسف زئی مالی قربانی دے رہے ہیں۔ حافظ الپوریئ ادبی ٹولنہ (تنظیم) عملی کام کررہی ہے، اور شعیب سنز پبلشر سوات مارکیٹ کے مالک فضل ربی راہیؔ پبلشنگ کے اعلیٰ معیار کو سامنے رکھ کر کام کررہے ہیں، تو یہ سب ہمارے لیے قابلِ قدر ہیں۔ اس پر یہ سب داد کے مستحق ہیں۔ ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔