فضل رازق شہاب

ایک دن ہمیں ڈگر آفس میں اطلاع ملی کہ درانی بابا، قادر نگر میں اپنے پیر و مرشد بابا قادر ولی کا عرس منائیں گے۔ ہم مقررہ دن قادر نگر جانے کے لیے دفتر سے نکلے۔ سوچا تھا کہ عرس کی تقریبات میں شرکت کے بعد ہم کھانے کے لیے موضع بٹئی میں محمد خان کے حجرے جائیں گے۔ موصوف جہانزیب کالج میں میرے ہم جماعت تھے اور اپنے گاؤں کے ملک، نقشی خان کے بیٹے تھے۔ جب ہم قادر نگر پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ وادی میں گویا رنگوں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ قادر نگر تک پکی سڑک بن چکی تھی اور خیبر سے کراچی تک بابا کے عقیدت مند بہت بڑی تعداد میں آئے تھے۔ ان میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی جن کے رنگ برنگ پیراہن سے ایسا لگ رہا تھا کہ قادر نگر کی تنگ گھاٹی میں ’غانٹول‘کھلے ہوئے ہوں، جو ان دوشیزاؤں اور معمر خواتین کے چہرے یکساں دمک رہے تھے۔ پروگرام کی تفصیل دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ اب اگر عرس میں شرکت کرنی ہے تو کھانا بابا صاحب کے لنگر ہی میں کھانا ہوگا۔ منتظمین اور بابا کے ذاتی ملازم بھاگ دوڑ میں مصروف تھے۔ نشستوں کا انتظام کیا جا رہا تھا۔ ایک صاحب جن کا تعلق کراچی کے تاجر طبقے سے تھا۔ بار بار کہہ رہے تھے کہ لیڈیز کے لیے بابا درانی کے قریب ترین جگہ مخصوص کریں کیوں کہ وہ حضرت صاحب کے نزدیک بیٹھنا چاہتی ہیں۔
ابھی کھانا نہیں لگا تھا۔ لوگ مختلف ٹولیوں میں بٹے باتوں میں مصروف تھے۔ حاضرین میں ہر طبقے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ موجود تھے مگر اکثریت انجینئرنگ کے شعبے پر مشتمل تھی۔ ہمارے ضلعی اور ڈویژنل سطح کے افسر بھی آگئے تھے۔ کھانا لگا تو شرکائے عرس نہایت سکون اور مہذب طریقے سے کھانے کے لیے بیٹھ گئے۔ میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ اتنی بڑی تعداد کے باوجودلوگ نہایت نظم و ضبط کا مظاہرہ کررہے تھے۔ کسی قسم کی چھینا جھپٹی اور گنوار پن دیکھنے میں نہیں آرہا تھا۔ کھانے کے بعد بعض حضرات کو دیکھا کہ لوٹے اور چلمچی اُٹھائے زائرین کے ہاتھ دھلوا ر ہے ہیں۔ ایک نہایت شان دار شخص سے ہم نے بھی ہاتھ دھلوائے۔ انھوں نے موٹے شیشوں اور کالی فریم والی عینک لگا رکھی تھی اور بہت بارعب لگ رہے تھے۔ میں نے اپنے ایس ڈی او سے پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں جو پانی ڈال کر لوگوں کے ہاتھ دھلوا رہے ہیں۔ ”تم نے نہیں پہچانا۔ یہ واپڈا کے چیئرمین شاہ نواز خان ہیں۔“ انھوں نے بتایا۔
اگر اتنے بڑے بڑے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ درانی صاحب کے دربار میں آئے ہوئے مہمانوں کی خدمت کو اعزاز سمجھتے ہیں، تو ضرور انھوں نے اُن میں کچھ تو دیکھا ہوگا۔ کھانا کھانے کے بعد ہم سوچ رہے تھے کہ عرس کی تقریبات شروع ہونے تک انتظار کریں یا درانی صاحب سے کسی نہ کسی طرح ملاقات کی شرف حاصل کرکے یہاں سے نکلنے کی کوشش کریں۔ ہمیں اطلاع ملی کہ فوری طور پر ڈگر آفس میں رپورٹ کریں۔ کچھ نہایت ضروری معلومات چیف آفس نے مانگی ہیں۔ ہم چپکے سے کھسک کر نکل گئے اور جیپ میں بھاگم بھاگ ڈگر آگئے۔ ایک آدھ مہینہ نہیں گزرا تھا کہ ہمارے سپرنٹنڈنگ انجینئر جناب ثناء اللہ بابر صاحب ڈگر تشریف لائے اور ہمیں کہا چلو قادر نگر چلتے ہیں۔ ہم اُن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔ راستے میں انھوں نے بتایا کہ درانی صاحب سے کچھ دوائیاں لینی ہیں۔ تب تک مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ ہومیو پیتھک طریقہئ علاج کے ماہر بھی ہیں اور لوگوں کامفت علاج کرتے ہیں۔ جب ہم قادر نگر پہنچے تو بابا صاحب وہاں پر ایک بڑے چٹان کے اوپر بیٹھے تھے۔ وہ صرف ایک شلوار میں ملبوس تھے اور بنیان قمیص نہیں پہنا تھا۔ ہم ہال میں بیٹھ کر اُن کا انتظار کرنے لگے۔ وہ اپنی روٹین کے مراقبے کے بعد اُتر کر ہمارے ڈس آگئے۔ بابر صاحب اور ہم سب سے ہاتھ ملایا۔ پھر بابر صاحب نے اُن کو اپنی تکلیف کے بارے میں بتایا۔ درانی صاحب نے اُن کو ہومیو پیتھک گولیاں اور پڑیاں دے دیں۔ اُن دنوں میری بائیں کہنی میں شدید درد ہو رہا تھا اور سرجن کبیر ہر ہفتہ اس میں انجکشن لگاتے تھے۔ اس بیماری کو انگریزی میں “Tennis Elbow” ٹینس اِلبو کہتے ہیں۔ میں نے بھی درانی صاحب کو اپنی تکلیف بیان کی۔ انھوں نے ایک قسم کی دوائی دی اور ساتھ ہی ایک پرزے پر ایک دوائی لکھ کر کہا کہ یہ اس وقت میرے پاس نہیں اگر پشاور جانا ہوا تو صدر میں فلاں دکان پر یہ چٹ دکھاؤ۔ یہ دوائی آپ کو مفت ملے گی۔ درانی صاحب کے ڈرائنگ روم میں شیر کی ایک کھال بچھی ہوئی تھی۔ وہ کسی چور نے اُڑالی۔ ملازم نے کئی دفعہ اُن سے کہا کہ تھانے میں چوری کی رپورٹ درج کرادیں، مگر انھوں نے انکار کیا اور فرمایا تھوڑے دن صبر کرو لے جانے والا خود ہی واپس لائے گا، اور واقعی ایک صبح سویرے ملازم نے دیکھا کہ وہ کھال، سیڑھیوں کی قریب پڑی ہوئی ہے۔
درانی صاحب اب دنیا میں موجود نہیں لیکن اُن کی بنوائی ہوئی عمارتیں اور باقی یادگاریں موجود ہیں۔ اُن کی ذات سے ”ٹانٹہ“ کا گمنام دیہات ”قادر نگر“ کے نام سے موسوم ہوکر ملک گیر شہرت حاصل کرگیا۔