روزی خان بابا عمر کی اس حد میں ہے کہ اس کی ریش سفید سے سفید تر ہوچکی ہے، لیکن اس کے جذبے اب بھی جواں ہیں۔ ہر وقت گردش میں رہنے کی وجہ سے صحت بھی ماشاء اللہ قابل رشک ہے۔ وہ اپنی خاص سج دھج میں ہر جگہ خراماں خراماں گھومتا رہتا ہے۔ باباجی کے سر پر چار خانے رومال پگ ہمیشہ بندھی ملتی ہے، جو اُس کی خاص پہچان ہے۔ سرخ و سپید رنگت والے اس زندہ دل بابا پہ نظر کا موٹا چشمہ بھی خوب جچتا ہے۔ عموماً اس کے ہاتھ میں ڈائری بھی ہوتی ہے۔ کہیں بھی کوئی ادبی محفل ہو، باباجی کو آپ وہاں موجود پائیں گے۔ وہاں بھی اُس کی سیمابی طبیعت کو قرار نہیں ہوتا۔ سامعین کی نشستوں میں اپنی مرضی کے بندے تاڑ کر فوٹو لے لیتا ہے۔ گھر آکر اُسی رات اُس پروگرام کی فیس بکی روداد لکھ کر برقی دنیا کو منتقل کردیتا ہے۔
شخصی حوالے سے وہ بڑا شفیق، ملنسار اور یاروں کا یار بندہ ہے۔ ہر وقت ہنستا مسکراتا رہتا ہے۔ اُس کے دل میں کسی کے بارے میں کوئی کھوٹ نہیں۔ صاف، سیدھا سادا اور بے ضرر بندہ ہے۔ ادب اور ادب پروروں سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ سخی اور مہمان نواز بھی ہے۔ عموماً کتابیں خرید کر پڑھتا ہے۔ وسیع المطالعہ ہے۔ پشتو کے ساتھ ساتھ اردو ادب کا بھی بسیط مطالعہ رکھتا ہے۔ باباجی کی گڑ ایسی شخصیت الگ مضمون کی متقاضی ہے۔ اگر ہم اس حوالے سے تحریر کو آگے بڑھائیں، تو ان کی شاعری کا موضوع ہم سے رہ جائے گا۔ لہٰذا ہم یہاں سے پہلو بدلتے ہوئے اُن کی شاعری کی طرف بڑھتے ہیں۔
باباجی کے اب تک تین شعری مجموعے منظرِ عام پہ آچکے ہیں، جن میں ”اوخکے“، ”تیغونہ“ اور ”لیونے خوب“ شامل ہیں۔ آخرالذکر حال ہی میں منظر عام پہ آئی ہے۔ سمیع اللہ گرانؔ نے اس کتاب کی چھپائی میں بڑی تگ و دو کی ہے۔ اسی لیے اس کا گیٹ اَپ، بناوٹ اور دیگر فنی پہلوؤں پہ خوب محنت کی گئی ہے۔ فلیپ کے دونوں پہلوؤں پہ بالترتیب سمیع اللہ گرانؔ اور نور حسین خادمؔ کی تحاریر ہیں، جبکہ پشت پہ ہمارے دوست پروفیسر عطاء الرحمان عطاؔ اپنی تحریر میں ہنستے مسکراتے نظر آرہے ہیں۔ اندرونی صفحات میں متحدہ عرب امارات دبئی کی ایک ادبی تنظیم کے صدر سلطان باش خیل آفریدی نے اپنی سنجیدہ تحریر میں باباجی کے فن اور شخصیت پہ حاشیہ کھینچا ہے، تو ساتھ ہی شیریں لب و لہجے کے شاعر انور عاطرؔ نے بھی اپنی تحریر میں باباجی پہ گلہائے عقیدت نچھاور کیے ہیں۔ سلطان باش خیل صاحب فرماتے ہیں کہ ”باباجی کی شاعری مزاحمت سے بھری پڑی ہے۔“ انور عاطر لکھتے ہیں کہ ”آپ کی شاعری میں انقلابی، قومی اور مذہبی موضوعات کی بجائے رومان کا پلڑا بھاری ہے، جب کہ عطاؔ صاحب لکھتے ہیں کہ ”باباجی عمر میں چاہے بزرگ سہی، لیکن مزاجاً بڑے یار باش انسان ہیں۔“
باباجی کی شاعری کا بنیادی وصف اُس کی سادگی، سلاست اور روانی ہے۔ اس نے کوئی فلسفیانہ موضوعات نہیں چھیڑے، نہ ہی تصوف کی گہرائیوں میں گیا ہے بلکہ جو خیال ذہن کے نہاں خانوں میں آیا اُسے عام فہم انداز میں لفظوں کا جامہ پہنا کر قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔البتہ اس میں جذبے کی شدت بڑی شد و مد کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ لکھتے ہیں:
نہ زی د زڑہ د کور تیارے مخلوقہ
راتہ اشنا کڑی خیرے مخلوقہ
سپین گیرے ئی کڑم، لاڑ بے رونقہ تیر شو
ژوند پہ اُمید د یو سپیرے مخلوقہ
باباجی کی شاعری میں لاشعوری طور پر فنی زیورات کی پیوند کاری موجود ہوتی ہے۔ اُسے پتا بھی نہیں ہوتا کہ کلام میں ہر زیور ہر ہر اندام میں خود بہ خود سجتا چلا جاتا ہے۔ یوں لفظوں کی مالا میں ہر ہر نگینہ اپنی اپنی جگہ چمکتا دمکتا دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اس ایک غزل ہی کو لیجیے کہ پہلے شعر میں رعایت ِ لفظی کا استعمال کس خوبصورت انداز میں کیا گیا ہے، لکھتا ہے:
بندیوان، بندیوان، بندیوان یمہ زہ
تورو زلفو تڑلے، پریشان یمہ زہ
دوسرے ہی شعر میں صنعتِ تضاد ملاحظہ ہو
د جفا پہ خنجر بے وفاؤ کڑمہ غوس
لا پہ دشت د الفت کی روان یمہ زہ
اس کے اگلے شعر میں تشبیہ کے ساتھ استعارہ بھی موجود ہے، ملاحظہ ہو:
د سرو شونڈو انگار پہ زیگر کڑمہ وریت
ستی شوے پہ اور د ہجران یمہ زہ
جب کہ اگلا شعر محاکاتی رنگ لیے ہوئے ہے، لکھتا ہے:
گل شو پڑق د مستئی ڈکہ خلہ پہ خندا
زیڑ زبیخلے وھلے خزان یمہ زہ
اِک اور جگہ لکھتا ہے کہ:
تہ د نظر سکروٹے سرے کڑہ خے
غوخے د بدن رالہ ورتے کڑہ خے
گویا غیر محسوس انداز میں فنی محاسن کا در آنا کسی شاعر کی خوش بختی بھی ہوتی ہے، اور حسن کاری کا وسیلہ بھی۔ باباجی خوش بخت ہے کہ اُس کے کلام میں آمد ہی آمد نظر آتی ہے، آورد کا شائبہ نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتا ہے۔
باباجی کی شاعری کا بیشتر حصہ رومان کی عطر بیز فضا میں معطر دکھائی دیتا ہے۔ اُس کو حسن بلا خیز کی کشش اپنی طرف کھینچتی ہے۔ جبھی وہ ایسے ایسے اشعار رقم کرتا چلا جاتا ہے۔
د چندن لختے خوشبوئی دے لہ شبابہ خیجی
د پٹ خائیست اور اورکی دے لہ حجابہ خیجی
د سادہ توب د لاسہ پریوتو لیمو کے دیار
پہ لوئی نصیب بہ می زڑگے لہ دِ دَریابہ خیجی
حسنِ اتفاق دیکھیے کہ باباجی کا ایک شعر اردو کے اس شعر کے ساتھ کس طرح متماثل ہے:
ناوِک انداز جدھر دیدہئ جاناں ہوں گے
نیم بِسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے
جب کہ باباجی کہتا ہے کہ
اوگدہ بانڑہ چی دے راواوڑی اشنا
رسا پہ سر د زڑہ پہ کور اولگی
شاعری میں باباجی کا تخلص ”لیونے“ ہے، لیکن ہم انہیں ”لیونے“ نہیں کہہ سکتے کہ ایک چنگے بھلے، باشعور اور دیدہ ور شخص کو ہم ”لیونے“ یا پاگل کیسے کہہ دیں۔ ہاں، وہ ”لیونے“ ہے لیکن زبان و بیان کا ”لیونے“ ہے، شعر اور وجدان کا”لیونے“ ہے، ایمان و ایقان کا ”لیونے“ ہے، جنون اور جانان کا لیونے ہے۔ سچ ہے کہ ایسے ہی جنونیوں، سرپھروں اور ادب کے ”لیونو“ سے ادب کا دامن وسیع ہے۔ چمن گل و گلزار ہے۔
قارئین، ہمیں فخر ہے کہ سوات میں ”لیونے بابا“ موجود ہے۔ جو ہمارا سرمایہئ افتخار ہی تو ہے۔