جناب وزیر اعظم صاحب نے اقتدار میں آنے سے پہلے قوم کے ساتھ بے شمار وعدے کیے تھے جو پورے ہوئے یا نہ ہوئے؟ چلیے، انھیں قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں لیکن جو وعدے انھوں نے نو جوانوں سے کیے تھے، البتہ وہ ابھی تک پورے نہیں ہوسکے۔ نوجوانوں کو عملی زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ملازمتوں کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا وعدہ عمران خان نے کیا تھا۔ حال ہی میں عمران خان نے بیان دیا ہے کہ جو نوجوان خود کو تباہ کرنا چاہتا ہے، وہ سرکاری نوکری کرلے۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیرا عظم صاحب کو نہ اپنے وعدوں کا پاس ہے، اور نہ انھیں نوجوانوں کے روشن مستقبل کا کوئی احساس ہی ہے۔گذشتہ عام انتخابات کے دوران عمران خان نے دیگر بہت سے وعدوں کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا تھا کہ وہ نیا پاکستان بنائیں گے، اور وطنِ عزیز میں ایسی تبدیلی لائیں گے جس میں بیرونی قرضوں پر انحصار ختم کیا جائے گا، عوام پر مہنگائی کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، بنیادی ضرورت کی اشیا سستی کی جائیں گی، ایک کروڑ لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں گے، غریبوں کے لیے پچاس لاکھ گھر تعمیر کیے جائیں گے، اور کسی کے ساتھ بے انصافی نہیں ہوگی۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے خوش کن وعدے کیے گئے تھے، لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ نئے پاکستان میں سب کچھ الٹ ہو رہا ہے۔
گذشتہ عام انتخابات کے بارے میں لوگوں میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ عمران خان کو پاک فوج کی سپورٹ حاصل تھی، اور انھوں نے عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کے لیے راستہ ہموار کیا تھا، لیکن موجودہ حکومت کی بری کارکردگی دیکھ کر پاک فوج کے اعلیٰ حکام بھی ضرور یہ سوچتے ہوں گے کہ انھوں نے کس شخص کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا ہے جس نے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کردیا ہے، اور عام لوگوں پر اتنی مہنگائی مسلط کردی ہے جس کی وجہ سے غریب عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
میرے اس آرٹیکل کو پڑھ کر شاید عمران خان کے چاہنے والے مجھ جیسے ناتجربہ کار اور کم عمر لکھاری کو برا بھلا کہیں گے، اور موجودہ حکومت کے بارے میں میری رائے کو کوئی اہمیت نہیں دیں گے، لیکن اس ملک کے ایک کم سن نوجوان کی حیثیت سے مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں اپنے پیارے ملک کے حالات کے بارے میں اپنی پریشانی کا اظہار کروں اور اپنے خیالات موجودہ حکمرانوں تک پہنچا دوں۔
مَیں نے پہلے بھی دو آرٹیکل لکھے تھے۔ ”پاکستان ہی پر الزام کیوں؟“اور ”نشہ، زہر قاتل“۔ ان دو آرٹیکلز کے لکھنے کے بعد مجھے میرے دوستوں اور خاص کر میرے کچھ اساتذہ نے میری ہمت توڑنی چاہی تھی اور مجھے کہا تھا کہ مجھے اخبار میں مضامین نہیں لکھنے چاہئیں، بلکہ اپنی پوری توجہ تعلیم پر دینی چاہئے، لیکن انھیں میرا جواب یہ تھا کہ اخبار میں لکھنا بھی تعلیم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ کیوں کہ جب میں کوئی مضمون لکھتا ہوں، تو اس کے لئے مطالعہ کرتا ہوں۔ معلومات حاصل کرتا ہوں اور اپنے والد فضل ربی راہیؔ صاحب سے رہنمائی لیتا ہوں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میرے والد ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور مجھے اپنی تعلیم پر پوری توجہ دینے کے ساتھ ساتھ کتابیں پڑھنے کا بھی درس دیتے ہیں۔ ان کی کتابیں اور مضامین دیکھ کر مجھ میں بھی پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے۔
عمران خان جس طرح اپنی تقریروں میں عوام کو نئے پاکستان اور تبدیلی کی خوش خبری دیتے تھے، اس کی وجہ سے میں بھی انھیں سپورٹ کرتا تھا لیکن جب وہ وزیر اعظم منتخب ہوگئے اور ان کی حکومت کی کارکردگی سامنے آئی، تو اس نے عوام سمیت مجھے بھی مایوس کردیا۔ عمران خان صاحب کو ووٹ دینے کا مقصد یہی تھا کہ پاکستان میں ایسی تبدیلی آئے گی جس سے ہمارے ملک کے عوام کو آرام و سکون ملے گا۔ ان کے مسائل حل ہوں گے، اور ملک ترقی و خوش حالی کی طرف بڑھنے لگے گا، مگر ان کے برسر اقتدار آنے کی وجہ سے عوام کا رہا سہا سکون بھی ختم ہوگیا، اور وہ مسائل اور مشکلات کے ایک نئے شیطانی چکرمیں پھنس کر رہ گئے۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بالکل بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیشہ پرامید رہنا چاہیے۔ اس لیے ہمیں اب بھی عمران خان سے یہ امید ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرِثانی کریں گے۔ اپنے گرد انھوں نے جو نا اہل لوگ جمع کررکھے ہیں، ان سے نجات حاصل کریں گے اور ہر محکمہ اور شعبہ میں اہل لوگوں کو آنے دیں گے جو عمران خان کے وِژن کو آگے بڑھانے میں مخلص ہوں۔ وزیر اعظم کو غریب عوام کے مسائل اور مشکلات کا احساس کرنا چاہیے اور اپنے وعدے کے مطابق نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں، مہنگائی کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات اٹھانا چاہئیں اور قومی معیشت کے حوالے سے ایسے انقلابی فیصلے کرنے چاہئیں جس سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور عوام خوشحالی سے ہم کنار ہوسکیں۔ یوں عوام کے گلے شکوے بھی دور ہوسکیں گے اور جناب وزیرا عظم صاحب کا امیج بھی مزید خراب ہونے سے بچ سکے گا۔