غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر ہی لوگ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ غربت اور گداگری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ چلا آرہا ہے ، ۔غربت، مہنگائی اور بیروزگاری سے بڑھتی ہے اور تبدیلی سرکار نے آکر یہی دوکام دلجمعی سے کئے ہیں۔ حکومت مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح میں اضافہ روکنے کے بجائے لوگوں کےلئے کاروبار میں مشکلات پیدا کرکے پناہ گاہوں اور لنگر خانوںکی تعداد بڑھاتی جارہی ہے۔ گویا گداگری کو جدید شکل دی جا رہی ہے ۔ اور رہی سہی کسر کورونا وائرس کی وبا سے پوری ہوگئی اس حوالے سے حکمرانوں کو مخالفین کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے ۔سوات پریس کلب کے ساتھ سڑک پر مجھے آتے جاتے آج بھکاریوں کی بھرمار دکھائی دی ، سڑک پر بیٹھا جواں سالہ لڑکا گھر کا خرچہ چلانے کیلئے گڑ کے گولے بھیجتا دیکھائے دیا اور ساتھ میں بھیک بھی مانگ رہا تھا ۔ایک ریڑھی بان بھی رو رو کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوئے بیٹھا تھا کہ اللہ کے نام پہ کچھ دے دو ۔

تقریبا سترہ برس قبل جب میں چھوٹا تھا تو بڑا سستا زمانہ تھا تین روپے کا نان اور تین روپے سوزوکی گاڑی میں مینگورہ سے سیدو شریف کا کرایہ ہوتا تھا اب دونوں کیلئے 10 روپے ادا کرنا پڑتے ہیں بلکہ ابھی ڈیڑھ دوسال پہلے تک جتنے پیسوں میں تقریباًایک لیٹر پٹرول مل جاتا تھا، اب اتنے پیسوں میں نصف لیٹر پٹرول بھی نہیں ملتا۔ اس ”تبدیلی “ نے ہمیں ماضی یاددلا دیا ہے اس زمانے میں اکا دکا فقیر ہی بھیک مانگتا ہوا دکھائی دیتا تھا ۔
ہمیں یاد ہے جب ہم فیض آباد سے امانکوٹ میں رہائش پذیر ہوئے تھے جہاں ایک معذورفقیر بھیک مانگنے آیا کرتا تھا، وہ گلی سے گزرتے ہوئے لمبی سی صدا لگاتا تھا جو ہمیں آج نھی یاد ہے ۔
معاشرے می عموماََ اپاہج بوڑھے بھیک مانگتے ہیں یا گداگری کیلئے انہیں استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ لوگ رحم کھا کر معذوربھکاریوںکو بخشیش دیدیتے ہیںاس کے علاوہ بچوں اور جواں سالہ لڑکیوں اور عورتوں سے بھی بھیک منگوائی جاتی ہے جس میں باقاعدہ مافیا کے لوگ ملوث ہوتے ہیں ۔ بھکاری ٹولے خودمختار حیثیت میں بھی گداگری کرتے ہیں۔ ماضی میں فقیربھی بڑے شریف ہواکرتے تھے جو خیرات کیلئے یہ صدا لگاتے ہو ئے گلی میں سے گزر جاتے تھے کہ ’جو دیدے اس کا بھی بھلا اور جو نہ دے اس کا بھی بھلا‘ مگر اب تو بھکاری بھی راہزن بن چکے ہیں اور لوگوں کے ہاتھوں سے نقدی چھین لیتے ہیں ۔

مگر اب جب پورے دنیا میں کورونا وائرس نے ایک وبا کی شکل اختیار کرلی ہے اور ہزاروں لوگ اس مرض سے مر رہے ہے جس کے خطرے کے باعث مینگورہ شہر اور مlحقہ علاقوں میں لاک ڈوان اور پہیہ جام ہے جو حکومت کے طرف سے احسن اقدام ہے مگر اس اقدام سے روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور ،ریڑھی بانوں کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے اور ان کے گھروں کے چولھے ٹھنڈے پڑھ گئے ہے جو مجبورا اب گھر سے نکل کر بھیک مانگ رہے ہیں ریاست مدینہ کا درس دینے والی حکومت دعوے تو بہت کر رہی ہے کم ہم غریبوں کو پیسے یا راشن دینگے جس میں ہمیں یہ شک نظر آرہا ہے کہ کیا یہ پیسے یا اشیائے خورودونش ان غریب مستحق لوگوں کو پہنچ جائنگے یا نہیں
ان غریب نادار لوگوں کو اگر راشن یا نقد پیسے مہیا کئے جائیں تو بھیک مانگنے کی لعنت پر قابو کر سکتے ہیں۔ اب صاحب حیثت لوگ اپنے صدقات،زکوٰة و عشر اور خیرات کی رقوم غریب اور مستحق افراد کو تلاش کرکے ان پر خرچ کرے تو یہ غیرت مند غریب لوگ بھیک مانگنے سے بچ جائنگے