روح الامین نایابؔ

قارئین کرام! یہ پشتو کی ایک نثری کتاب ہے۔ درجِ بالا پشتو زبان کے عنوان کا اُردو ترجمہ مَیں ”بحث مباحثے ہوا کے دوش پر“ کروں گا۔ یہ تمام مباحثے ادب کے بارے میں ہوچکے ہیں، لیکن ایک عجیب اور نرالے انداز سے۔ آج کل کی مصروف دنیا میں مل کر بیٹھنا خاصا مشکل ہوگیا ہے۔ تین ساتھی آتے ہیں، تو چوتھا کسی وجہ سے نہیں آتا۔ چار آتے ہیں، تو پانچواں آنے سے معذور۔ اس طرح محفل ادھوری ہوتی ہے، اور بحث مباحثہ مزہ دیتا ہے نہ کوئی فیصلہ ہی ہوتا ہے۔ لمبے راستے اور فاصلے دوستوں کے ملنے میں الگ آڑے آتے ہیں، لیکن ادب کے متوالے کچھ دوستوں نے موبائل کی جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھایا کر مثال قائم کردی ہے۔ مذکورہ نوجوانوں نے ”کانفرنس کال“ کے ذریعے ادبی مباحثوں کے سلسلے کو دوام بخشا ہے۔ ان کی یہ کوشش قابلِ رشک ہے اور یہ تمام دوست مبارک باد کے مستحق ہیں۔
124 صفحات کی اس چھوٹی سی کتاب میں اُس چلتے پھرتے ”ادبی بنڈار“ کی پوری مگر مختصر رودادیں رقم ہیں جو ”کانفرنس کالز“ کے ذریعے وقتاً فوقتاً منعقد ہوچکی ہیں۔ اس ”ادبی بنڈار“ کے ذریعے بہت اہم ادبی موضوعات پر مباحثے ہوچکے ہیں، جس میں تنقیدی نشستوں کے علاوہ جدت، رومانیت، کلاسیکی ادب، پشتو زبان پر خارجی اثرات، تصوف، پشتو ادب میں ترقی پسندی اور توہمات جیسے موضوعات شامل ہیں۔ حقیقت میں یہ ایک بہت بڑی حوصلہ افزا بات ہے اور ایک قابلِ قدر ادبی سلسلہ ہے۔ کیوں کہ عام طور پر ہماری ادبی سرگرمیاں صرف کتابوں کی رونمائیوں اور مشاعروں تک محدود ہوچکی ہیں۔ ہمارا اکثر شاعر صرف شاعری کرتا ہے، لیکن شاعری کے رموز اور ادب کی الف بے سے یکسر ناواقف ہوتا ہے۔

دراصل یہی علمی اور تنقیدی نشستیں ادب کو آگے بڑھاتی ہیں، اور ایک شاعر اور ادیب اس قابل ہوجاتا ہے کہ بہ قول خیر الحکیم حکیم زئی، ”وہ پھر اپنی زبان، اپنی قوم اور وطن کے بارے میں کسی سوچ اور فکر کا نمائندہ بن جاتا ہے۔ وہ اپنے علم کے مطابق شعر، نثر، افسانہ، ڈراما، ناول یا روداد اور تاریخ پڑھ سکتا ہے۔ اپنے مطالعے اور سمجھ بوجھ کی روشنی میں اپنے معاشرے اور سماج کے تناظر میں کسی نئی تحقیق کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔“
آج کا دور تو جدید دور ہے اور دنیا تحقیق کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ہمیں اب گل و بلبل اور زلف و رخسار کی شاعری چھوڑنا ہوگی۔ اب عوامی مسائل، عوامی دکھ درد، بھوک اور افلاس اور غریب کے زخموں کو شاعری اور ادب کا موضوع بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنی تاریخ کو پڑھنا ہوگا، سمجھنا ہوگا اور ادب کو اس حد تک متحرک کرنا ہوگا کہ وہ عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی لے آئے۔ وہ ادب جو عوام کی سمجھ میں نہ آئے، جو معاشرے اور سماج میں تبدیلی نہ لائے، ایسا ادب جمود کا شکار ہوجاتا ہے، وہ مرجاتا ہے اور اُس کے ادیبوں کے ذہنوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔
اس کتاب کی تالیف و ترتیب کے سرخیل، سر خیل آباد سخرہ مٹہ سوات کے امیر زیب زیبؔ ہیں۔ اس ”ادبی بنڈار“ کے بانیوں میں امیر زیب زیبؔ کے ساتھ سرور خٹک صاحب، صابر احمد صابرؔ صاحب، حکیم زئی صاحب اور ایوب ہاشمی صاحب شامل ہیں۔

اس ”ادبی بنڈار“ کے مختلف ہوائی مباحثوں میں بدرالحکیم حکیم زئی، نادر خان علیلؔ صاحب، نوجوان شاعر اظہار اللہ ہلالؔ، طاہر بونیرے، طاہر آفریدے، وزیر نگارؔ، شہر یار داغؔ، پروفیسر عثمان، مسکان خٹک اور نورالدین ایم ثانی جیسے قابل دانشوروں نے شرکت کی ہے اور اپنے قیمتی خیالات سے ”بنڈار“ کے سامعین کو نوازا ہے۔
اس ”ادبی بنڈار“ کے عہدیداروں میں سرور خٹک صاحب، امیر زیب زیبؔ، داؤد جانؔ، خواتین قلم کاروں میں ثمینہ قادر اور کلثوم زیب نازو اور زیبا آفریدی نائب صدر کے عہدوں پر رہی ہیں۔
سرپرست کے عہدوں پر سرور خٹک کے علاوہ نادر خان علیلؔ اور بدرالحکیم حکیم زئی صاحب رہ چکے ہیں۔ جب کہ جنرل سیکرٹری کے عہدے پر سمیع اللہ گرانؔ کے علاوہ داؤد جان اور امیر زیب زیبؔ بھی رہے ہیں۔
کتاب میں بعض رودادیں بے ترتیب دی گئی ہیں، جیسے کہ صفحہ نمبر 33 پر رومانیت کی روداد کی تاریخ 23 اگست 2014ء جب کہ صفحہ نمبر 37 پر روداد نمبر 7 کی تاریخ 5 اکتوبر 2013ء ہے۔ اس طرح روداد نمبر 11 کی تاریخ صفحہ نمبر 57 پر 9 نومبر 2014ء درج ہے، جب کہ صفحہ نمبر 54 پر روداد نمبر 12 کی تاریخ 2 نومبر 2014ء درج ہے۔
بہرحال یہ ایک نئی اور اچھی کاوش ہے، مجھے اُمید ہے کہ دوسرے ادبی دوست بھی اپنے رابطوں اور ادبی مباحثوں کے لیے یہ طریقہئ کار اپنائیں گے۔ مَیں اس انوکھی کاوش پر اور ساتھ اس کتاب کے لکھنے پر امیر زیب زیبؔ کو مبارک باد دیتا ہوں، اور کتاب عطیہ کرنے پر امیر زیب صاحب کا نہایت مشکور و ممنون ہوں۔
قارئین، میری دعا ہے کہ خداوندِ کریم اُس کا زورِ قلم اور ذوقِ ادب ہزار بار بڑھائے۔