سلیمان ایس این
اگر ہم پاکستان میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بات کریں تو ان اداروں نے ہمیشہ ملکی ترقی میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔پاکستان میں اساتذہ کی ایک کثیر تعداد نجی تعلیمی اداروں میں قوم کے نونہالوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہی ہے۔ مگر حکومت نوکریاں دینے کی بجائے لوگوں سے چھین رہی ہے لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے ہیں ، ایک ایسا دردناک واقعہ میرے سامنے آیا ہے جو اپ لوگوں کیساتھ شیر کررہا ہو
’مٹر لے لو۔۔ تازہ مٹر ۔۔ مٹر لے لو‘۔ یہ آوازایں لگاتے ہوئے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے شہر مینگورہ کے گلی کوچوں میں مٹر فروخت کرنے والے نجی سکول پرنسپل کی ایک ویڈیو مقامی سوشل میڈیا نیوز کے فیس بک پیج پر دیکھی جس سے میرا دل ابدیدہ اور آںکھیں نم ہوگئی
سوات پرائیویٹ سکول کے پرنسپل حیدر حیات بے روزگاری اور غربت سے تنگ آکر مٹر فروخت کرنے پر مجبور ،حیدر حیات کورونا وبا سے پہلے مینگورہ شہر کے نجی سکول دی روٹس اکیڈمی میں پچاس ہزار (50,000) تنخواہ لیتا تھا مگر جوں ہی کورونا وبا کی وجہ سے 13 مارچ کو لاک ڈوان کیوجہ سے سکول بند ہوگئے ان کو تنخواہ بھی ملنا بند ہوگئی ،گھر میں جو جمع پھونجی تھی وہ ختم ہوگئی اور گھر میں فاقے پڑھنا شروع ہوگئے ،گھر میں اشیا خوردونوش نا ہونے کی وجہ ان دنوں وہ مینگورہ شہر کی گلیوں میں پیدل سر پر برتن رکھ کر مٹر بیچتے ہیں۔
گلی کوچوں میں مٹر بیچ کر اپنے اہل خانہ کے لیے حلال رزق کمانے کے جوش میں یہ خود دار انسان جوڑوں کے درد سے چور ہونے کے باوجود بھی صبح سے شام تک گلی کوچوں ،ٹرانسپورٹ اڈوں میں مٹر فروخت کرنے پر مجبور ہے کیونکہ وہ اپنے رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں کے سامنے جھولے نہیں پھیلا نا چاہتا،
حکومت پاکستان سے مطالبہ ہے کہ حیدرحیات جیسے بہت سے اساتذہ اور دیگر ملازم جو بے روز گاری اور غربت سے تنگ آگئے ہیں ان کی حال پر رحم کھا یا جائے اور اس سفید پوش طبقے کے لئے کوئی وظیفہ یا کوئی مالی پیکیج مقرر کی جائے اور تعلیمی اداروں کو ایس او پیز کیساتھ کھولا جائے تاکہ یہ تعلیمی یافتہ طبقہ اس ملک میں چھین کی سانس لے سکے اور وقم کی معماروں کو روشی دیکھانے والے یہ سفید پوش طبقہ اقدام خودکوشی پر مجبور نہ ہو،