آج بیٹھے بیٹھے بلاوجہ خونہ چم کے چشمے کی یاد آگئی۔
ہم اُن دنوں چھوٹے بچے تھے ۔ یہی کچھ 5 یا 6 سال کے۔ شگئی سکول میں پڑھتے تھے۔ روزانہ چاہے گرمی ہو یا سردی…… افسر آباد سے لے کر شگئی سکول تک جانا معمول رہتا۔
مجھے تھوڑا بہت یاد ہے،یہ خوڑ (ندی) ہمارے سکول سے ذرا سیدو کی طرف مڑتا، تو اسی چشمے کے قریب سے گزرتا۔آج کل جہاں یہ کالونیاں سی نظر آرہی ہیں، یہ علاقہ “Marshes” پر مشتمل تھا۔ اس میں خوڑ کے بڑے بڑے گول پتھر تھے، جس پر ہم بیٹھ کر دوپہر کو گھر سے لایا ہوا ’’لنچ باکس‘‘کھاتے تھے، جو عموماً جوار کی روٹی اور ساگ یا اُبلے ہوئے چاول پر مشتمل ہوتا۔
خوڑ کا پانی صاف شفاف ہوتا، مگر ہم مذکورہ چشمے کا پانی پیتے جو سردیوں میں گرم اور گرمیوں ٹھنڈا ہوتا۔
یہ چشمہ انتہائی صاف رہتا۔ لوگوں کی سہولت کے لیے ریاستی سرکار نے اونچی سڑک کے ساتھ لگی سیڑھیاں بنوائی تھیں۔ قریبی آبادی جو بہت محدود تھی، کے لوگ یہاں سے پانی بھر کر لے جاتے۔
مگر اب بڑھتی ہوئی آبادی اور انسانوں کی ہوس نے اس چشمے کی گزرگاہ کو اتنا محدود کردیا ہے کہ اس کا بہاؤ تقریباً رُک چکا ہے۔ اس میں “Situration”کی وجہ سے گند جمع ہوجاتا ہے۔ خوڑ کی گزرگاہ کو محدود کرکے کالونیاں بنائی گئی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ایک صبح فجر کے وقت میرے دل میں ایسا ہی خیال آیا کہ اس چشمے میں ملگجی صبح کا فائدہ اُٹھا کر نہاؤں…… مگر جب مَیں نے اس کی صورتِ حال دیکھی، تو ارادہ ترک کردیا۔
میرے سیدو شریف کی وہ صورت بھی باقی نہ رہی، جو ہم 1980ء میں چھوڑ کر گاؤں واپس آگئے تھے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے، ہمارے گاؤں کے فضل ودود خان میرے ساتھ افسر آباد کی پرانے دور کی یادیں تازہ کر رہے تھے۔ موصوف کے والد غلام محمد خان ریاست کے سند یافتہ اور مواجب خور ملک تھے۔ کہنے لگے، افسر آباد میں جو سڑک سے بہت اونچائی پر تم لوگوں کا گھر تھا، وہ کتنا بڑا تھا۔ پورے محلے کے مکانات سے دبدبہ اور شان وشوکت ظاہر ہوتی تھی۔ اتنی پُروقار بستی پھر کبھی نہیں دیکھی۔ حالاں کہ وہ پتھر گارے کی دیواریں اور بڑی بڑی شہ تیروں اونچی کھڑکیوں والی آبادیاں تھیں۔ پھر بھی ان کی ایک الگ شان تھی۔
بس اللہ کی مرضی……!
بقولِ شاعر
وائے نادانی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا