فضل محمود روخان
’’مارتونگ باباؒ کی کہانی خود ان کی زبانی‘‘ نامی کتاب (جس کا میں خود مؤلف ہوں)کے صفحہ نمبر 38 پر علاقہ تیراہ کے بڈوان شریف کے حضرت شیخ المشائخ سید عبدالرزاق ؒ سے ملاقات کے بارے میں کچھ معلومات درج ہیں۔ سید عبدالرزاق سلسلۂ قادریہ اور چشتیہ کے مانے ہوئے ولی اللہ تھے۔ مارتونگ باباجیؒ نے گو کہ حضرت سنڈاکئی بابا سے بیعت لی تھی اور سنڈاکئی بابا اُن کے پیرو مرشد تھے، لیکن مارتونگ باباجیؒ بیعت کے از خود مجاز نہیں تھے۔ لوگ اُن سے وظائف اور اذکار کے سلسلے میں بیعت لینا چاہتے تھے۔ مارتونگ باباجیؒ نے اس مشکل کو حل کرنے کے لیے سید عبدالرزاق سے بیعت لی اور یوں وہ دوسرے لوگوں سے بیعت لینے کے مجاز بن گئے۔ یہ مسئلہ سے اس وجہ سے پیش آیا تھا کہ اُن کے پیر و مرشد سنڈاکئی بابا رحلت کرگئے تھے۔ اس وقت سے میرے دل میں سید عبدالرزاقؒ کے بارے میں جاننے کی آرزو پیدا ہوئی تھی۔
ایک دفعہ میں نے آصف خان مرزا صاحب (مصنف، تاریخِ ریاستِ سوات) سے اس بارے میں ذکر کیا، تو انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ میں نے سید عبدالرزاقؒ سے بیعت لی تھی۔ اس وجہ سے مارتونگ باباجیؒ میرے پیر بھائی بنتے ہیں۔ اب مَیں نے سید عبدالرزاق کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی ہیں، جو نذرِ قارئین کرنا چاہتا ہوں۔
آج کل سید ظفر اللہ بخشالی کا پی ایچ ڈی مقالہ میرے زیرِ مطالعہ ہے، جو انہوں نے فضل رحیم ساقی کی زندگی اور ادبی خدمات کے بارے میں تحریر کیا ہے۔ ’’ڈَک جام‘‘ نامی کتاب فضل رحیم ساقی کا شعری مجموعہ ہے، جو زیادہ تر نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے اپنی کتابِ مذکورہ کو سید عبدالرزاقؒ کے نام منسوب کیا ہے۔ منسوب ہونے کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ
’’میں اپنی یہ کتاب ’’ڈَک جام‘‘ صاحب زادہ صاحب عبدالرزاق کے نام کرتا ہوں جو علاقہ تیراہ اورکزئ کے رہنے والے تھے۔ یہ اصل میں سید تھے۔ ان کے آبا و اجداد صدیوں سے پختونوں کے پیر خانہ مانے جاتے تھے۔ یہ مذہبی راہنمائی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دارو درمل (دوا دارو) کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ کیوں کہ یہ اپنے وقت کے حکیم اور طبیب ہوا کرتے تھے۔ یہ لوگوں کا مفت علاج کرتے تھے۔ ان کے دربار میں ہر وقت مریض زیرِ علاج رہا کرتے تھے۔ ان کی محبت، اخلاص اور ہمدردی کے نتیجے میں ناقابلِ علاج مریض بھی جلد از جلد صحت یاب ہوجاتے تھے۔ 21 اکتوبر 1942ء کو باچا خان نے مجھے (فضل رحیم ساقی کو) چند خدائی خدمت گاروں کے ہمراہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی خاطر تبلیغ پر تیراہ روانہ کیا۔ اور اپنے ساتھیوں میں مجھے مشر (بڑا) مقرر کیا۔ ہم نے تیراہ اورکزئ اپریدو (آفریدی علاقہ) کے گھر گھر خان عبدالغفار خان کا پیغامِ آزادی پہنچایا۔ اس آزاد علاقے پر انگریزوں کا رُعب طاری تھا۔ ہم نے جن لوگوں کے کہنے پر اس علاقے کو چنا تھا، انہوں نے رات گزارنے کے لیے جگہ دینے سے انکار کیا۔ گو کہ وہ بلا کے مہمان نواز تھے، لیکن انگریزوں کے ڈر کی وجہ سے رات گزارنے کے لیے وہ ہمیں اپنے حجروں اور گھروں میں رکھنے پر آمادہ نہ تھے۔ کیوں کہ ہمیں اپنے پاس رکھنا اُن کے لیے آسان کام نہ تھا۔ اس لیے ہم سید عبدالرزاق ؒ کے پاس چلے گئے۔ وہاں ہم نے اپنے اغراض و مقاصد اُن کے سامنے بیان کیے۔ انہوں نے نہایت خوشی سے ہمیں اپنے سایۂ عاطفت میں رکھنا منظور کیا۔ اس کے برعکس وہاں کے تنخواہ خور ملا اور بزعم خود بزرگانِ علاقہ نے ہماری راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں۔ سید عبدالرزاقؒ نے ہمیں دو سال چھے ماہ تک اپنی نگرانی میں رکھا اور ہم پر آنچ تک نہ آنے دی۔ اُس وقت کوہاٹ کے ڈپٹی کمشنر شیخ محبوب علی خان تھے، جو اورکزئ ایجنسی کے پولی ٹیکل ایجنٹ بھی تھے۔ اُن کی طرف سے ہمارے خلاف جرگہ آیا۔ جرگہ نے سید عبدالرزاق ؒ کے سامنے اپنی مدعا بیان کی کہ ان کانگرسیوں کو چلتا کریں۔ اس کے عوض 500 روپے ماہانہ، پانچ بوری چینی، مفت راشن مع کپڑے کے لیا کریں۔ جیسا کہ یہ مراعات انگریزوں کی جانب سے دوسرے بزرگانِ ملت کو حاصل تھیں۔ لیکن انہوں نے جرگے کو نامراد واپس کیا اور انگریزوں کے مراعات کو پاؤں تلے روند ڈالا۔ اس کے بعد سید عبدالرزاق ؒ نے ہمارے ساتھ پیار و محبت کے رشتہ کو بڑھاوا دیا۔ جب باچا خان جیل سے رہا ہوئے، تو انہوں نے ہمیں اپنے پاس بلا لیا۔ رخصتی کے وقت انہوں نے اپنے بھائیوں اور بھتیجوں کو ہمارے ہمراہ روانہ کیا، وہ ہمارے ساتھ مرکز عالیہ سردریاب تک آئے اور انہوں نے باچا خان سے ملاقات کی اور پھر واپس چلے گئے۔ لیکن کاش وہ دن بھی ہماری زندگی میں ابھی نہیں آیا تھا کہ سید عبدالرزاق ؒ اور باچا خان ملاقات ہم اپنے آنکھوں سے بھی دیکھ پاتے۔ پاکستان بننے کے بعد قیوم خان کے دورِ حکومت میں سید عبدالرزاق کو گولی مار کر شہید کیا گیا اور جو کام انگریزوں سے نہیں ہوسکا، وہ ہوا۔‘‘
خاک میں کیا صورتیں ہونگیں کہ پنہاں ہوگئیں