فیاض ظفر
جب بھی مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے، تو ساتھ میں ہر طبقہئ فکر کے لوگ مالی مشکلات اور پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں کبھی مہنگائی میں کمی کا تو کسی نے سنا نہیں ہوگا، لیکن ہر دورِ حکومت میں مہنگائی ضرور دیکھی جاتی ہے۔ پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ ہی مہنگائی خود بخود آجاتی ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور روپے کے مقابلہ میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے مہنگائی خود بخود آتی ہے۔ یوں ریاست پر قرضوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے اور یہی بوجھ بالآخر عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔
قارئین، پچھلے ایک سال سے مَیں بیماری کی وجہ سے زیادہ تر اپنے دفتر میں ہوتا ہوں۔ کچھ دن پہلے کسی کام سے تاج چوک جانا پڑا، وہاں ملک بھر میں چائینہ سامان کے لیے مشہور ”ہلال پلازہ“ کو دیکھا، تو وہ ویران پڑا تھا۔ مَیں نے ساتھی سے کہا کہ پلازہ کے اندر جاتے ہیں۔ وہاں جاننے والے دکان داروں کے ساتھ بات چیت کی۔ مَیں نے پوچھا کہ پلازہ کیوں ویران پڑا ہے؟ انہوں نے جواباً کہا کہ وہ سامان چین سے خریدتے ہیں۔ ”چینی ین“ ڈالر دے کر حاصل کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ڈالر کی قیمت میں ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا جس کی وجہ سے وہ چیز جو ہم سو روپے میں خریدتے تھے، اب ایک سو تیس روپیہ میں خریدتے ہیں۔ خریداری کے بعد وہ مال بحری جہاز کے ذریعے پاکستان بھجواتے ہیں جس کا کرایہ بھی ڈالر میں ہوتا ہے۔ مال کراچی پہنچنے کے بعد ہم کسٹم ادا کرتے ہیں، جس میں بھی حکومت نے اضافہ کر دیا ہے۔ دوسری طرف ڈیزل مہنگا ہونے کی وجہ سے ٹرکوں کے کرایوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے سو روپے میں پڑنے والی چیز اب یہاں پہنچ کر ایک سو اسّی/ نوّے روپے میں پہنچتی ہے۔ ایک طرف سامان مہنگا ہوجاتا ہے، جب کہ دوسری طرف لوگوں میں قوت خرید نہیں، جس کی وجہ سے بازار ویران پڑا ہے۔
دکان دار نے یہ بھی کہا کہ یہاں ہر دکان دار کے ساتھ ایک تا دس سیلز مین ہوا کرتے تھے۔ اب مجبوراً بیشتر سیلز مینوں کو فارغ کیا جا چکا ہے، جس کی وجہ سے بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔ یہاں تک کہ اب دکان دار اپنا کاروبار ختم کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اس لیے کہ بندہ کب تک نقصان اٹھاتا رہے؟
قارئین، ایک جانب سوات سے اربوں روپیہ مختلف حیلوں بہانوں اور دھوکوں سے باہر جاچکا ہے۔ رہی سہی کسر ڈالر کی قدر اور مہنگائی میں اضافہ نے پورا کردی۔ اس وجہ سے ہر جانب پریشانی ہی پریشانی ہے۔ مہنگائی میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے، تو اس کے ساتھ خریداری میں کمی آجاتی ہے۔ روپیہ مارکیٹ میں گردش کرنا کم کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک تنخواہ دار شخص کی تنخواہ بیس ہزار روپیہ ہے، اور اس کے گھر کے اخراجات 18 ہزار ہیں، تو وہ ماہانہ دو ہزار کی وہ اشیا خریدے گا جو ضروری نہیں۔ مثال کے طور پر وہ اضافی رقم سے ہفتے میں ایک بار بچوں کے لیے فروٹ خرید کر لے جائے گا، یا پھر کباب یا مچھلی یا گوشت یا چکن خرید کر لے جائے گا۔ اب اگر مہنگائی میں اضافہ ہوجائے اور اس کی تنخواہ بیس ہزار اور اخراجات بائیس ہزار روپے ہو جائیں، تو وہ یہ اضافی اشیا خریدنا بند کردے گا۔ پھر اشیائے خور و نوش میں بھی کمی لائے گا۔یعنی وہ گوشت، چکن کھانا کم یا پھربالکل بند کردے گا۔ مہمانوں کے لیے بسکٹ یا ڈرائی فروٹ لانا بند کردے گا۔ دو کلو دودھ خریدنے والا ایک کلو خرید ے گا۔ اور جب یہ چیزیں خریدنا بند ہوجائیں گی، تو چائینہ مارکیٹ، بیکری، دودھ فروش، گوشت فروش، مچھلی فروش، ڈرائی فروٹ والا، پھل فروش الغرض ہر کاروباری شخص پر اس کا اثر پڑے گا۔ یہاں تک کہ ضروری اشیا مثال کے طور پر آٹا، سبزی، دال چائے وغیرہ کا استعمال بھی کسی حد تک کم ہوجائے گا۔
قارئین، گذشتہ دنوں سوات ٹریڈرز فیڈریشن کے صدر سے بات ہوئی۔ مَیں نے ان سے پوچھا کہ بازار کی کیا پوزیشن ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ”ہر دکان دار رو رہا ہے۔“
اس طرح گذشتہ روز گھر سے فون آیا، فروٹ لانے کا کہا گیا۔ شام کے بعد جب میں گھر جارہا تھا، تو ایک جاننے والے پھل فروش کے پاس رُکا۔ اس سے کچھ پھل خریدے۔ مذکورہ پھل فروش کا بڑا ٹھیلا ہر قسم کے پھلوں سے بھرا رہتا تھا۔ مَیں نے اس سے ٹھیلے کے محدود ہونے کی وجہ پوچھی،تو اس نے کہا کہ جو گاہک روزانہ فروٹ لے کر جاتا تھا، اب وہ ہفتے میں ایک بار اور وہ بھی مقدار میں کم لے جاتا ہے۔ اس طرح جو ہفتہ وار لے کر جاتا تھا، وہ مہینے میں اک آدھ بار ہی لینے پر اکتفا کرتا ہے جس کی وجہ سے میرا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔
قارئین، اس طرح لوگ نئے کپڑے بنانا، جوتے خریدنا کم یا بند کردیتے ہیں۔ برسبیلِ تذکرہ، کچھ روز پہلے کچھ دوست دفتر آئے تھے۔ ہم یہی ذکر کر رہے تھے کہ اس دوران میں ایک دوست نے دوسرے دوست جن کا پٹرول پمپ ہے کے بارے میں کہا کہ ”وہ عمرہ کے لیے گیا ہے!“ ایک دوست نے ازراہِ مذاق کہا کہ پمپ والے تو مہنگائی سے متاثر نہیں ہوتے۔ مَیں نے جواباً دوستوں کو کہا کہ وہ بھی متاثر ہیں بلکہ ہر طبقہئ زندگی اس سے متاثر ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ پمپ والے کیسے متاثر ہیں؟ تو ان کو مَیں نے اپنی مثال دی کہ میرے پاس ”اٹھارا سو سی سی“ کی کرولا گاڑی تھی۔ ایک مخصوص پمپ سے میں ماہانہ 20 ہزار روپے تک پٹرول ڈلواتا تھا۔ مہنگائی کی وجہ سے میں نے وہ گاڑی فروخت کر دی، اور چھے سو ساٹھ سی سی گاڑی خریدلی، جس میں اب میں ماہانہ دس ہزار روپے تک کا پٹرول ڈلواتا ہوں۔ اس طرح اگر آپ سوات میں دیکھ لیں، تو اکثر لوگ ٹی زیڈ جیپوں میں گھومتے تھے۔ اب وہ بڑی بڑی گاڑیاں آپ کو تعداد میں کم نظر آئیں گی۔ بازار میں چھے سو ساٹھ سی سی جو بہت کم خرچ ہیں، کی تعداد میں روز بروز اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ یوں پٹرول پمپوں کی سیل کم اور وہ بھی متاثرین میں شامل ہیں۔
بجلی کے یونٹ میں ہر ماہ اضافہ، گیس کی قیمتوں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے تمام لوگ پریشان ہیں۔ اب اگر مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا، تو (خاکم بدہن) پھر لوگ خاندان سمیت اجتماعی خودکشی پر مجبور ہو جائیں گے۔ آئی ایم ایف مہنگائی میں مزید اضافہ کرے گا اور ہم کو خود کشیوں پر مجبور کرے گا۔