تصدیق اقبال بابو
ادبِ عالیہ میں ’’شیلے‘‘نے شاعر کے متعلق کہا تھا کہ ’’کوئی شخص یکایک بیٹھے بٹھائے یہ اعلان نہیں کرسکتا کہ ’’اب میں شاعری کروں گا۔ شاعر کے اندر ایک غیر مرئی طاقت چھپی ہوتی ہے۔ جب اُس پہ اضطراری کیفیت آتی ہے، تو یہ طاقت اُبال کی صورت ظاہر ہونے لگتی ہے۔ اس کے لیے عمر، وقت اور جنس کی قید نہیں ہوتی۔‘‘ وہ مزید لکھتا ہے کہ ’’شان دار سے شان دار شاعری جو اہلِ دنیا تک پہنچی ہے وہ شاعر کے اصلی تصور کا ایک دھندلا سا عکس ہے۔‘‘
اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سراج الدین سراجؔ پہ یہ الزام ہے کہ انہوں نے 60 سال کے بعد ہی شاعری کیوں شروع کی؟ جب کہ وہ خود اپنے متعلق لکھتے ہیں کہ
پنزہ واڑہ حسونہ می زوال طرف تہ لاڑل
دا خہ شوہ شپگم حس می پہ آخرہ کے بیدار شو
مخالفین کا کہنا ہے کہ اُن کی شاعری پہ دوسروں کا عکس ہے۔ یہ سب الزامات اپنی جگہ، لیکن ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ کچھ تو تخلیق کر رہا ہے۔ یہ تخلیقی طاقت اُس غیر مرئی طاقت یا اُس اضطراری کیفیت کا نتیجہ ہے جو اُس کے اندر موجود تھی، لیکن مناسب وقت، حالت یا اندرونی کیفیت کی وجہ سے دیر آئد کے مصداق وارد ہوئی۔ بہر کیف! یہ فیصلہ تو وقت اور زمانہ کرتا ہے کہ کون کیا تھا اور کیا کہہ گیا ہے؟ میرو مرزا کے دور میں مرزا (رفیع سوداؔ ) اپنے لٹھ بردار شاگردوں کے گروہ کے ساتھ مخالفین پہ چڑھ دوڑتا تھا۔ آج میر (تقی میرؔ ) زندہ ہے اور سودا کا نام صرف قصیدہ گوئی ہی میں رہ گیا ہے۔ اسی طرح غالبؔ کے دور میں ذوقؔ کا توتی بولتا تھا، یہاں تک کہ محمد حسین آزادؔ نے بھی ڈنڈی نہیں بلکہ ڈنڈا مار کر ذوقؔ کو غالبؔ سے بڑا شاعر قرار دے دیا، لیکن آج غالبؔ ’’غالب‘‘ ہے اور ذوقؔ کا کوئی نام نہیں لیتا۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ سراجؔ کوئی بہت بڑا شاعر ہے۔ جو مستقبل میں بھی زندہ رہے گا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر اس کے حاسدین یا مخالفین موجود ہیں، تو اُس کے چاہنے اور سراہنے والے بھی موجود ہیں۔ مختلف مشاعروں میں اُسے خوب داد بھی ملتی ہے اور سوشل میڈیا پہ تو اُس کا اِک خاص حلقہ ہے جو اُسے آنکھوں پہ بٹھاتا ہے۔ بندہ دِل کا برا نہیں۔ تھوڑا سادہ سا ہے۔ اعتبار میں مار کھا جاتا ہے، لیکن دل کا ایسا سخی ہے کہ جس سے مار کھاتا ہے، اُسے جلد ہی معاف بھی کر دیتا ہے۔ کچھ غلطیاں اپنے آپ سے نکال لے، تو اور بھی ہیرا بن جائے۔
اب آتے ہیں اُس کی شاعری کی طرف۔ شاعری میں اُس کا بیانیہ سادہ، رواں اور عام روزمرہ کے مطابق ہے۔ اس میں کوئی پُرپیچ گھمبیر تا نہیں۔ کوئی بعید از قیاس استعارے نہیں، کہیں سے کوئی دور کی کوڑی لانے کی کوشش نہیں کی۔ سب ہمارے ارد گرد کی باتیں ہیں۔ معاشرتی، اصلاحی اور فلاحی باتوں کے ساتھ ساتھ داخلی وارداتوں کا بھی اِک جہانِ حیرت آپ کی شاعری میں موجزن دِکھتا ہے۔ آپ 2015ء سے ہر سال اِک کتاب کا تحفہ اپنے چاہنے والوں کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں۔ ’’پھی پہ پرہر‘‘ اور ’’داغونہ می خالونہ کڑل‘‘ کے بعد مذکورہ کتاب ’’دشعور انگازے‘‘ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ٹائٹل پہ قلمی پنکھ مدار میں گھومتے شعور کی گھمبیرنی کی علامت دکھتے ہیں۔
پروفیسر عطاؔ کا خیال ہے کہ ’’بہ ظاہر سادہ، قانع اور بے پروا سا دِکھنے والا سراجؔ اندر سے کتنا سیمابی، بے کل اور حساس ہے۔ اُس کے اندر سے نکلنے والی ہوک میں شور بھی ہے، شعور بھی اور شعر بھی۔ اُن کی شاعری اپنے عہد کی ترجمان اور زندگی کے نزدیک تر ہے۔‘‘ حروفِ تہجی کی ترتیب سے لکھے گئے اس مجموعے میں بھی وہی روایتی موضوعات یعنی حسد، کینہ، چغلی، تعصب اور (پختونوں کے) روایتی گلے شکوے موجود ہیں۔ البتہ کہیں کہیں رومان کے تاروں کو بھی چھیڑا گیا ہے جس میں آپ کا بوڑھا قلم بھی جوانی کی انگڑائیاں لیتا دکھائی دیتا ہے، مثلاً
گلہ راتہ اوخاندہ پخلا شہ، خہ!
بس دے کنہ مڑے، اوس رضا شہ خہ!
ڈیر می پہ زڑگی راوریدلی یے
نن خو می بے طمعے خوالہ راشہ خہ!
یا یہ کہ
د زلزلے شان کیفیت شی پہ ما
یار چی ول ول زلفی پہ شا اڑوی
جب تلخی کی طرف آتے ہیں، تو ایسے اشعار لکھنے لگ جاتے ہیں:
د شمار یو سو تنان مو پہ سٹونو راسوارہ دی
د قام وگڑی ٹول پہ خپل نفاق خوارہ وارہ دی
اپنے عزیز دوست بھائی سے شکوہ شکایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ہم بہ دلتہ ہم بہ ہلتہ مخ تورن وی
چی ورور خرس کڑی د اغیارو رورولی کڑی
مزید لکھتے ہیں:
چی دلتہ کے اوسیگی چالاکی، چاپلوسی ایزدہ کڑہ
کہ امن سکون غواڑے د خودئ د چارو واوڑہ
ما اووے چی یاری پہ شلتالو شوہ، مانہ پاتی
یار اووے چی رازے نو شلتالان زان سرہ راوڑہ
حاسدین کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
چی حسد، کرکہ بغض یے شیوہ شی ھغہ ورک شی
بہ برہ باندی خیجی چی لہ یو بلہ زاریگی
آپ نے شاعری میں روزمرہ، محاوروں اور کہاوتوں کو بھی خوب جگہ دی ہے: مثلاً
متل دے دا چی ’’عقل پہ ٹکرو ایزدہ کیگی‘‘
د پوہے دولتونہ شی موندل پہ تجربہ
یا یہ بھی کہ
تانہ دی اوریدلی! پہ پختو کے دا متل دے
’د سپی خو ہسے منڈہ وی خو سویہ د مالک وی‘
محاورات کے ساتھ صنعتوں کا بھی بھر پور استعمال موجود ہے۔ یہاں تک کہ صنعت واسع الشفتین (عبارت یا مصرعہ میں ایسے الفاظ لانا جن کو پڑھنے سے لب سے لب نہ ملیں) جیسی مشکل صنعت بھی موجود ہے: مثلاً
سنگ چی سترگے د نظر د خوا نہ نہ زی
داسے سڑکے د زیگر د خوا نہ نہ زی
تعلّی کی رو میں بہہ کہ یہاں تک کا دعویٰ کربیٹھتے ہیں کہ
رنڑا گانے خورول یے وظیفہ دہ
یو سراجؔ دے پہ اسمان کے بل پہ زمکہ
آپ کی شاعری میں کوئی بڑا آفاقی یا کلاسیکی پیغام موجود نہیں پھر بھی دل کو اچھی لگتی ہے۔ اور عوامی حلقوں میں وہی شاعری قبول کی جاتی ہے جو دِل کو اچھی لگے یا قاری کہے کہ ’’یہ میرے ہی دِل کی بات ہے۔‘‘ لہٰذا اس حوالے سے سراجؔ خوش قسمت ہے کہ اُسے عوامی قبولیت حاصل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔